ملائیشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیرمحمد کا دورہ پاکستان ملک کے تمام حلقوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس حوالے سے عمران خان کے تاثرات بھی زیرِ بحث ہیں، جن میں انہوں نے مہاتیر محمد اور ترک صدر ایردوآن پر تعریفوں کی بارش کی۔
اشتہار
مہاتیر محمد کل جمعرات کے روز تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تھے، جہاں ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ اسلام آباد میں کئی مقامات کو خیر مقدمی نعروں اور مہاتیر کی تصاویر سے سجا دیا گیا ہے۔
حالیہ مہینوں میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کچھ کم ہی غیر ملکی مہمانوں کا بہ نفس نفیس استقبال کیا۔ لیکن مہاتیر کے استقبال کے لیے وہ خود پہنچے۔
صدرِ پاکستان ڈاکڑ عارف علوی نے ملائیشیا کے وزیرِ اعظم کو ملک کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ 'نشانِ پاکستان‘ سے بھی نوازا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے اس دورے کی بھرپور کوریج کی۔
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ملائیشیا اسلامی جمہوریہ سے جے ایف تھنڈر سمیت کئی اشیاء درآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس حوالے سے کئی مفاہمتی یاداشتوں کی توثیق بھی کی گئی، جن پر پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کے گزشتہ برس دورہ ملائیشیا کے دوران دستخط کئے گئے تھے۔
دونوں وزراء اعظم نے آج بروز جمعہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی، جس میں اسلاموفوبیا مرکزی نکتہ رہا۔ انہوں نے نیوزی لینڈ میں مارے جانے والے پاکستانیوں کی ہلاکت کا بھی تذکرہ کیا اور ایسے واقعات کو نفرت کا نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملائیشیا اب تک ترقی یافتہ بن چکا ہوتا لیکن حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے یہ عمل رک گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب ملائیشیا کو جلد ہی ترقی یافتہ بنایا جائے گا۔
واضح رہے کہ ملائیشیا کے وزیرِ اعظم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں ہونے والی چینی سرمایہ کاری پر تحفظات رکھتے ہیں یا ان کی شرائط اور طریقہ کار بدلنے کے حامی ہیں۔
پاکستان میں کئی ناقدین یہ ہی رائے عمران خان کے حوالے سے دیتے ہیں کہ وہ چینی سرمایہ کاری کے طریقہ کار پر تحفظات رکھتے ہیں یا ان میں کوئی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے سیاسی حریف مولانا فضل الرحمن نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے سی پیک کے منصوبوں کو روکا ہوا ہے۔
دونوں وزراء اعظم نے مشترکہ طور پر اسلام آباد میں PROTON پلانٹ کا افتتاح کیا، جس سے دونوں ممالک میں سروس اور مینوفیچرنگ کو فروغ حاصل ہوگا۔
کئی ناقدین دونوں وزراء اعظم میں چینی سرمایہ کاری پر تحفظات کو مشترکہ نکتہ قرار دیتے ہیں۔ دفترخارجہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق دونوں رہنماؤں نے فلسطین اور برما سمیت کئی سیاسی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ معیشت، تجارت، صنعت اور دہشت گردی بھی دونوں رہنماؤں کے درمیان موضوعِ گفتگو رہی۔
دونوں رہنماوں نے اپنے ممالک کے تعلقات کو اسٹریجک لیول پر لے جانے کا اعادہ بھی کیا اور ملائیشیا کے وزیر اعظم نے پاکستان کو بین الاقوامی 'میری ٹایم اینڈ ایرو اپیس‘ نمائش میں شرکت کی دعوت بھی دی، جو چھبیس سے تیس مارچ تک کوالالمپور میں منعقد ہوگی۔
مہاتیر کل بروز ہفتہ یوم پاکستان کی تقریب کے مہمان خصوصی ہوں گے۔
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔