ملائیشیا کے سترہویں بادشاہ ارب پتی سلطان ابراہیم کون ہیں؟
31 جنوری 2024
ملائشیا میں ریاستوں کے درمیان گردش کرنے والے انوکھے شاہی نظام کے تحت، اس بار سلطان ابراہیم کو پانچ برس کی مدت کے لیے بادشاہت سونپی گئی ہے۔ ارب پتی سلطان ابراہیم اسکندر کا تعلق جنوبی ریاست جوہر سے ہے۔
اشتہار
ملائشیا کی جنوبی ریاست جوہر کے ارب پتی سلطان ابراہیم اسکندر کو بدھ کے روز ملک کے سترہویں بادشاہ کے طور پر حلف دلائی گئی۔ وہ السلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ کی جگہ لیں گے، جو بطور بادشاہ اپنے پانچ سالہ دور کے اختتام پر اپنی آبائی ریاست پہانگ کی قیادت کے لیے واپس لوٹیں گے۔
اس موقع پر سلطان ابراہیم نے قومی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے پروگرام کے دوران کہا، ''اس حلف کے ساتھ، میں پوری سنجیدگی سے اور سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ ملائشیا کے قوانین اور آئین کے مطابق منصفانہ حکومت کروں گا۔''
سلطان ابراہیم اسکندر نے کوالالمپور کے قومی محل میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔انہوں نے شاہی خاندان کے متعدد افراد کے ساتھ ہی وزیر اعظم انور ابراہیم اور ان کی کابینہ کے ارکان کی موجودگی میں دستاویز پر دستخط کیے۔ ان کی تاج پوشی کی تقریب بعد میں منعقد کی جائے گی۔
سن 1957 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ملائشیا میں ایسی بادشاہت کا نظام رائج ہے، جہاں کسی ایک ریاست کے شاہی خاندان کے فرد کو پانچ برس کے لیے بادشاہت کے عہدے پر فائز کیا جاتا ہے۔
پوری دنیا میں یہ اپنی نوعیت کا واحد شاہی نظام ہے، جس کے تحت ملک کی نو نسلی ریاستوں کے حکمراں پانچ برس کے لیے بادشاہ کے طور پر تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ملائشیامیں مجموعی طور پر 13 ریاستیں ہیں، تاہم شاہی خاندان صرف نو ریاستوں میں ہی ہیں۔ یہ نظام تمام نسلوں کو متحد کرنے بھی ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔
ملائيشيا میں ہزاروں بچوں کا ’چھوٹا حج‘ ، خانہ کعبہ کے ماڈل کے گرد طواف
ملائيشیا میں ہزاروں کم سن بچوں نے احرام باندھ کر مسلمانوں کے مقدس فریضے حج کی ادائیگی کی مشق کی ہے۔ ان بچوں نے جھلسا دینے والی گرمی میں خانہ کعبہ کے ایک ماڈل کے ارد گرد طواف بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
’چھوٹا حج‘
ملائيشیا کے دارالحکومت کوالالمپور سے باہر ایک کھلے میدان میں چھ سال کی عمر کے قریب چار ہزار بچوں نے ’چھوٹے حج‘ کی مشق میں حصہ لیا۔ ان تمام بچوں نے احرام باندھ رکھے تھے اور سبز رنگ کے بیگ بھی اٹھائے ہوئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
مقدس ترین زیارت
خانہ کعبہ سعودی عرب کے شہر مکہ میں واقع ایک چوکور عمارت ہے جو سیاہ رنگ کے کپڑے سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہ مسلمانوں کے نزدیک مقدس ترین زیارت ہے۔ کعبے کے گرد پھرنا یا طواف کرنا مناسک حج کا ایک اہم جز ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
بےقراری سے انتظار
خیزراہ نے بتایا کہ تمام بچے حج کی پریکٹس کرتے ہوئے بہت پر جوش تھے اور اب وہ اصلی حج پر جانے کا بے قراری سے انتظار کریں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
کاغذ کے پتھر
بچوں کی حج مشق کے منتظمین کی ترجمان خاتون خیرزاہ قمرالدین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس مشق کا مقصد چھوٹے بچوں کو آنے والے حج کے لیے تیار کرنا تھا۔ اس تصویر میں یہ بچے شیطانوں پر کنکر مارنے کے لیے کاغذ سے بنے پتھر چن رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
تصویروں سے تفہیم
بچوں کو حج کی مشق کے دوران بتایا جاتا ہے کہ حج کے مناسک کونسے ہیں اور ان کی ادائیگی کی ترتیب کیا ہو گی۔ اس تصویر میں ایک بچہ تصویروں کی مدد سے حج کے مختلف مراحل کو سمجھ رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
حج ادا کرنے کی بےتابی
حج مذہب اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور مالی استطاعت رکھنے والے تمام مسلمانوں پر عمر میں کم از کم ایک بار فرض بھی ہے۔ اس تصویر میں حج کی تیاری کرنے والی بچیاں حجاب پہنے ہوئے ہیں اور اپنے نقلی پاسپورٹ ہاتھوں میں اٹھائے حج پر جانے کے لیے بےتاب نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
حج کی اہمیت
اس تمام عمل کا مقصد چھوٹے بچوں کو حج کی اہمیت بتانا اور حج کے موقع پر لوگوں کے ہجوم یا وہاں پیدا ہونے والے کسی بھی قسم کے ممکنہ خوف کو دور کرنا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
خوشی کا اظہار
خیزراہ نے بتایا کہ تمام بچے حج کی پریکٹس کرتے ہوئے بہت پر جوش تھے اور اب وہ اصلی حج پر جانے کا بے قراری سے انتظار کریں گے۔ اس تصویر میں مشق مکمل ہونے پر ایک طالبہ بچی اپنی ٹیچر کے ساتھ خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
8 تصاویر1 | 8
ملائشیا میں بادشاہ کا رول کیا ہوتا ہے؟
ملائشیا میں باد شاہ کو عام طور پر 'خدا کا مقرر کردہ باد شاہ' کہا جاتا ہے، تاہم حکومتی امور میں بادشاہ بڑے پیمانے پر رسمی کردار ہی ادا کرتا ہے۔ حکومت کے تمام انتظامی اختیارات وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں۔
بادشاہ حکومت اور مسلح افواج کا محض برائے نام سربراہ ہوتا ہے اور اسے اسلام اورملائشیا کی روایات کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔
تمام قوانین، کابینہ کی تقرریوں اور عام انتخابات کے لیے پارلیمنٹ کی تحلیل کے لیے بادشاہ کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ بادشاہ کو ہنگامی حالت کا اعلان کرنے اور مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔
اشتہار
سلطان ابراہیم اسکندر کون ہیں؟
سلطان ابراہیم اسکندر کا تعلق ملائشیا کی جوہر ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ماں برطانوی نژاد ہیں۔ وہ فوج، بحریہ اور فضائیہ کے افسر بھی رہ چکے ہیں اور اپنی بیشتر تعلیم امریکہ میں حاصل کی ہے۔
وہ اہم کاروباری مفادات سے مربوط بھی ہیں، جن میں جوہر کے ساحل پر سو ارب ڈالر کی مالیت کے فاریسٹ سٹی کے ترقیاتی منصوبے کے حصص بھی شامل ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی کافی فعال رہتے ہیں۔ ان کے پاس لگژری اور اسپورٹس کاروں کے ساتھ ہی پرائیویٹ جیٹ طیاروں کا بھی ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔
ان کے چھ بچے ہیں اور انہوں نے غریبوں میں خیرات تقسیم کرنے کے لیے ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ماضی میں ریاست جوہر کے ارد گرد سالانہ دورے بھی کیے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
ملائیشیا میں سنسر شپ کا نشانہ بننے والی نو حیرت انگیز فلمیں
ڈزنی نے ملائیشیا کے حکام کو اپنی فلم ’بیوٹی اینڈ دی بیسٹ‘ کے نئے ورژن کو سنسر کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے وہاں اپنی فلم کی نمائش ملتوی کر دی ہے۔ ملائیشیا میں سنسر شپ کا نشانہ بننے والی یہ پہلی فلم نہیں ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Disney
شنڈلرز لِسٹ (1993ء)
ملائیشیا کے سنسر حکام کے مطابق یہ فلم ’محض ایک مخصوص نسل کے افراد کے استحقاق اور اَقدار‘ کی عکاس تھی اور یہ ’ایک طرح کا پراپیگنڈا تھی، جس کا مقصد ایک نسل کے افراد کے لیے ہمدردی اور دوسری نسل کے افراد کی ساکھ خواب کرنا تھی‘۔ بعد میں یہ پابندی ہٹا دی گئی اور متعدد پُر تشدد اور برہنہ مناظر کاٹ کر محض ایک ڈی وی ڈی ورژن کی اجازت دی گئی، جس پر فلم کے ڈائریکٹر اسٹیون اسپیل برگ خاصے برہم اور آزردہ تھے۔
تصویر: picture alliance/United Archives
بیب (1995ء)
خنزیر اس فلم کا مرکزی کردار تھا جبکہ ملائیشیا میں اس جانور کا ذکر ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں ملائیشیا کے سنسر حکام نے اس بنیاد پر فلم پر پابندی لگا دی کہ اس سے وہاں کی اکثریتی مسلم آبادی کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں۔ پھر لفظ ’بیب‘ خنزیر کے لیے استعمال ہونے والے ملائی زبان کے لفظ ’بابی‘ سے بھی ملتا جُلتا تھا۔ بعد میں اس فلم کے بھی ڈی وی ڈی ورژن کی اجازت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/United Archives
ڈیئر ڈیول (2003ء)
ملائیشیا کے سنسر حکام نے نہ صرف اس فلم کو حد سے زیادہ متشدد قرار دیا بلکہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے یہ بھی سننے میں آیا کہ نوجوان کسی ’ایسے شخص کو اپنا آئیڈیل بنا سکتے ہیں، جس کا نام سننے میں شیطان کی طرح لگتا ہے‘۔
تصویر: Imago
زُو لینڈر (2001ء)
ملائیشین فلم سنسر بورڈ LPF نے اس فلم کو نمائش کے لیے ’قطعی طور پر غیر موزوں‘ قرار دے دیا تھا کیونکہ اس میں دکھایا گیا تھا کہ ملائیشیا ایک پسماندہ ملک ہے، جہاں کے کارخانوں میں لوگوں کا استحصال ہوتا ہے اور انتہائی کم معاوضے پر کام کروایا جاتا ہے۔ بورڈ نے اس بات کو بھی غیر مناسب جانا کہ فلم کے ایک کردار کو، جسے اداکار بَین اسٹلر نے نبھایا تھا، ملائیشیا کے وزیر اعظم کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/United Archiv
برُوس آلمائٹی (2003ء)
اس فلم میں اداکار مورگن فری مین نے خدا کا کردار ادا کیا تھا۔ اسلام میں اس کی ممانعت ہے اور اس فلم پر کافی احتجاج بھی ہوا تھا۔ بعد میں اس فلم کے ڈی وی ڈی ورژن کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس فلم کا اگلا حصہ 2007ء میں ’ایوان آلمائٹی‘ کے نام سے سامنے آیا تو اُس پر بھی تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا کیونکہ اس میں پیغمبر حضرتِ نوح اور اُن کے دور میں آنے والے سیلاب کا مزاحیہ انداز میں ذکر کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/United Archives
دی پیشن آف دی کرائسٹ (2004ء)
اس فلم کو ابتدا میں ’مذہبی حوالے سے حساس‘ کہہ کر اس پر پابندی لگائی گئی تھی۔ ایک جواز یہ بھی بتایا گیا کہ قرآن میں جن پیغمبروں کا ذکر کیا گیا ہے، اُن میں سے چند ایک کو اس فلم میں دکھایا گیا ہے۔ بعد میں ڈی وی ڈی ورژن کی اجازت تو دی گئی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ یہ صرف ’مسیحیوں کے لیے اور صرف گھر پر بیٹھ کر دیکھنے کے لیے‘ ہے۔
تصویر: AP
دی وولف آف وال اسٹریٹ (2013ء)
یہ بات باعث حیرت نہیں کہ اس فلم پر جنسی مناظر، منشیات اور F سے شروع ہونے والے ایک انگریزی لفظ کے 506 مرتبہ استعمال کے باعث پابندی لگائی گئی۔ اہم بات یہ تھی کہ اس کی فلم ساز ایک امریکی کمپنی ’ریڈ گرینائٹ پکچرز‘ تھی، جس کی بنیاد رکھنے والوں میں ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق کے سوتیلے بیٹے رضا عزیز تھے، جو اس کمپنی کے چیئرمین بھی تھے۔ اب اس کمپنی کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت تحقیقات جاری ہیں۔
تصویر: picture alliance / ZUMA Press
نوح (2014ء)
کہا جاتا ہے کہ ملائیشیا کے فلم سنسر بورڈ ایل پی ایف کے سربراہ نے اس فلم کے حوالے سے کہا تھا:’’کسی کو بھی پیغمبر کے کردار میں پیش کرنا غیر اسلامی ہے۔ اگر پیغمبر کی تصویر بنانا ایک مسئلہ ہے تو پھر فلم مختلف کیسے ہو گئی؟ بلاشبہ یہ ممنوع ہے، اس کی اسلام میں ممانعت ہے۔‘‘ 1998ء میں اسی طرح کی وجوہات کی بناء پر ’ڈریم ورکس‘ کی پہلی اینی میٹڈ میوزیکل فلم ’دی پرنس آف ایجپٹ‘ پر پابندی لگائی گئی تھی۔
تصویر: Niko Tavernise/MMXIII Paramount Pictures Corporation and Regency Entertainment
دی ڈینش گرل (2015ء)
اس فلم کی نمائش پر پابندی کے لیے ملائشیا کے سنسر حکام نے کوئی باقاعدہ وجہ نہیں بتائی تھی۔ اس فلم میں ایک مرد خود کو ایک عورت کے روپ میں پیش کرتے کرتے بالآخر تبدیلیٴ جنس کا آپریشن کروا لیتا ہے۔ اسے ’بد اخلاقی کو ترویج دینے والی‘ فلم قرار دیتے ہوئے اس پر کافی احتجاج بھی کیا گیا۔ اس فلم کی نمائش قطر، عمان، بحرین، اُردن، کویت اور متحدہ عرب امارات میں بھی ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔