برلن کے دفتر روزگار میں نوکریوں کے متلاشی مہاجرین امید اور بے یقینی کی مشترکہ کیفیت کے ساتھ انٹرویو دینے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ زیادہ تر کے پاس پیشہ ورانہ صلاحیتیں ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہیں۔
اشتہار
برلن کی ایک عمارت کے باہر تارکین وطن کا رش اس قدر زیادہ تھا کہ پیدل چلنے والوں کو راستہ فراہم کرنے کے لیے بھی پولیس کو کام کرنا پڑا۔ ان بیتاب لوگوں کو چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں اندر جانے دیا جا رہا تھا۔ یہ لوگ کسی فلمی ستارے کو دیکھنے کے لیے جمع نہیں تھے، بلکہ دفتر روزگار میں نوکری کی تلاش میں پہچنے تھے۔
برلن کی روزگار کی ایجنسی سے وابستہ آندرے ہانشکے کا کہنا تھا کہ برلن میں منعقد ہونے والی یہ ’جاب فیئر‘ یا ملازمتوں کے حصول کے لیے نمائش، جرمنی میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی نمائش ہےجو خاص طور پر صرف پناہ گزینوں کے لیے لگائی گئی ہے۔
اب تک یہاں چار ہزار سے زائد تارکین روزگار حاصل کرنے کی خواہش میں رجسٹریش کروا چکے ہیں۔ انتظامیہ کا خیال ہے کہ آئندہ دنوں میں ہزاروں مزید افراد بھی نوکری ملنے کی امید میں جاب فیئر کا رخ کریں گے۔ اب تک جن پناہ گزین یہاں رجسٹریشن کے لیے آ چکے ہیں، ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق شام، عراق، افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک سے ہے۔
دس ہزار مہاجرین کو فنی تربیت فراہم کرنے کا منصوبہ
01:31
اس مارکیٹ میں مختلف کمپنیوں اور تعلیمی اداروں کی جانب سے 211 اسٹال لگائے گئے ہیں جہاں مہاجرین کو بنیادی ضروری معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ تارکین وطن یہاں ملازمت حاصل کرنے کے لیے رابطے قائم کر سکتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں بائر اور واٹن فال جیسی بڑی کمپنیوں کے علاوہ کئی علاقائی صنعتوں نے بھی حصہ لیا۔ اس دوران کُل ایک ہزار سے زائد نوکریوں کے لیے درخواستیں موصول کی گئیں۔
اس دوران تارکین وطن کو موقع پر ہی ملازمتیں فراہم نہیں کی گئیں بلکہ اس مارکیٹ کا مقصد یہ ہے کہ ملازمت کے متلاشی افراد کو کمپنیوں اور نوکریوں کے ساتھ ساتھ درکار قابلیت کے بارے میں بھی معلومات مہیا کی جا سکیں۔
ووڈا فون کے اسٹال پر موجود لیسانے لاؤئر کا کہنا تھا کہ لوگوں نے ان کی کمپنی میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے بہت دلچسپی کا اظہار کیا۔ لاؤئر ان سے ایک ہی سوال پوچھتی تھیں، ’’ملازمت چاہیے تو بتائیے آپ کیا کام کر سکتے ہیں؟‘‘
لاؤئر نے درجن بھر درخواستیں جمع کر رکھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان درخواستوں کا جائزہ لینے کے بعد انہیں دو ہفتوں کے اندر اندر بتا دیا جائے گا کہ آیا انہیں نوکری مل سکتی ہے یا نہیں۔
عادل ادریس بھی ان درخواست دہندگان میں شامل ہے۔ انتالیس سالہ ادریس کا کہنا ہے کہ وہ ویڈیو آرٹسٹ ہے۔ جرمنی میں اسے مستقل کام کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن اسے پھر بھی امید ہے کہ ووڈا فون میں اسے سافت ویئر ڈیویلپمنٹ کے شعبے میں عارضی کام یا انٹرنشپ مل جائے گی۔
تیس سالہ شامی شہری بلال ناصر بھی اس سے قبل تعلیم حاصل کرنے کے لیے کئی آن لائن درخواستیں دے چکا تھا لیکن ہر بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس نمائش کے دوران اسے براہ راست یونیورسٹیوں کے نمائندوں سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اب وہ جانتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسے مزید کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔
اس نمائش کے دوران بھی ایک بات سب سے نمایاں دکھائی دی، وہ یہ ہے کہ جرمنی میں ملازمت کے حصول کے لیے جرمن زبان سے واقفیت ناگزیر ہے، اگرچہ کچھ فنی شعبوں میں انگریزی زبان سے بھی کام چل جاتا ہے۔
جرمن وفاقی ریاست برلن کی میئر فرانزسکا گیفی کا کہنا تھا کہ اب وقت باتیں کرنے کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنے کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمنی میں مہاجرین کا بحران دوسرے حصے میں جا چکا ہے جہاں سماجی انضمام کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘