ملالہ نے ایک بات کی ہم نے کمال کر دیا
11 جون 2021اب اس میں کتنی سچائی ہے وہ مختلف لوگ اپنے اپنے تجربات سے بیان کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر معاشروں میں شادی اور خاندان سماج کے اہم ڈھانچے سمجھے جاتے ہیں۔ کسی حد تک یہ سچ بھی ہے۔ سماج کی شروعات انہی اداروں سے ہوتی ہے اور ان دو مختلف سماجی اداروں کا آپس میں گہرا تعلق بھی ہے لیکن یہ بات سچ نہیں ہے کہ یہ دونوں ادارے آزاد اور خودمختار نہیں رہ سکتے۔
خاندان کیا ہے؟
آسان بھاشا میں خاندان کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ آپس میں خونی وابستگیوں یا ازدواجی بنیادوں پر اپنی مرضی سے اس طرح ساتھ رہیں کہ جذباتی اور معاشی وسائل آپس میں بانٹ لیں۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ خاندان کوئی فارمل یا قانونی ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک آزاد سماجی ادارہ ہے، جہاں ہم جیسے چاہیں اس کے متعلق فیصلہ کر سکتے ہیں۔
یہ ایسا ہی ہے، جیسے ہمارے دوست ہوتے ہیں۔ ہماری زندگی میں بہت سے ایسے دوست ہوتے ہیں، جنہیں ہم اپنے خاندان کی حیثیت دیتے ہیں۔ بنیاد اس کی یہ ہوتی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ ہماری روزمرہ کی جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔
یہاں ایک اور بات بھی بتاتی چلوں کہ ضروری نہیں ہے کہ خاندان پیدائش سے ہمارے ساتھ چپک جائے اور پھر آخری سانس تک یہ ساتھ چلتا رہے۔ خاندان بھی دوسری سماجی حقیقتوں کی طرح مسلسل ارتقائی سفر کرتا رہتا ہے اور ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ وہ مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا ایک بالکل مختلف شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں شادی پر: شادی دو افراد کے مابین ایک معاشرتی معاہدہ ہے، جسے معاشرے میں قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ دنیا میں ایک ہم ہی نہیں ہیں، جو ازدواجی رشتے کو خاندان تشکیل دینے کا واحد اور اہم ڈھانچہ سمجھتے ہوں۔ ہماری طرح اور بھی سماج ہیں، جو یہی یقین رکھتے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ حقیقت اب پنپ رہی ہے کہ شادی خاندان بنانے کا لازمی ادارہ نہیں ہے۔ یہی حقیقت تھی، جس کی طرف ملالہ نے کچھ دن پہلے اشارہ کیا تھا۔
اس کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ لازمی نہیں کہ شادی کے لیے کوئی قانونی معاہدہ ڈرائیونگ لائسنس کی طرح ہاتھ میں لے کر گھوما جائے۔ اگر معاشی اور جذباتی وابستگی ہی کی بات ہے تو یہ تو کسی معاہدے کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔ قانون حقوق کا تحفظ تو کر سکتا ہے مگر جذبات کی تشکیل تو نہیں کر سکتا۔
اس میں ایسی کیا بات ہے، جو سمجھنے میں مشکل ہو؟ ہم خاندانی نظام کے زوال کی ذمہ داری مخصوص طبقے پر تو ڈال دیتے ہیں مگر اس نقطے پر دھیان نہیں دیتے کہ خاندانی نظام تب کیوں نہیں ٹوٹتا، جب ایک مرد دو بیویوں کو گھر میں لاتا ہے؟ انسان ایک فرد ہے اور اس فرد کو اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں خطوط کا تعین کرنے کا پورا حق حاصل ہوتا ہے۔
خاندان کا پہیہ ہو یا سماجی زندگی ہو، یہ دونوں ہر موسم میں ایک طرح کے رنگ اور خوشبو نہیں دے سکتے۔ ہر گزرے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی صورتیں بھی بدل جاتی ہیں۔ ارتقا ایک بڑی حقیقت ہے، جس کے لیے نئی نسل کا تازہ خون بہت اہمیت رکھتا ہے۔ خون پانی سے زیادہ گاڑھا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، مگر پانی کو خون سے زیادہ گاڑھا کرنے پر توانائیاں صرف نہیں کرنی چاہئیں۔ پانی گاڑھا ہو گا تو اس کی رفتار سست ہو جائے گی، ایک جگہ رکا ہوا پانی جوہڑ بن جاتا ہے، جو تعفن پھیلاتا ہے۔