پاکستان میں چار روزہ قیام کے بعد ملالہ یوسفزئی پیر کے دن برطانیہ واپس روانہ ہو گئیں ہیں۔ اپنے اس دورے کے دوران ملالہ نے اپنے آبائی شہر سوات کا دورہ بھی کیا، جہاں طالبان نے انہیں حملے کا نشانہ بنایا تھا۔
اشتہار
سن دوہزار بارہ میں جب ملالہ یوسفزئی کو طالبان نے حملے کا نشانہ بنایا تھا تو وہ سوات کے ایک گمنام سے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی تقریبا چودہ سالہ بچی تھیں۔ تاہم اب جب انہوں نے حملے کے بعد تقریبا ساڑھے پانچ برس بعد پاکستان کا پہلا دورہ کیا تو وہ نہ صرف دنیا کے معتبر تعلیمی ادارے آکسفورڈ کی طالبہ ہیں بلکہ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی مشہور عالمی شخصیت بھی بن چکی ہیں۔
’ملالہ سوات میں ہمارے اسکول بھی آئيں اور ہم سے باتیں کريں‘
01:01
اپنے دورہ پاکستان کے دوران انہوں ںے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور اپنے آبائی شہر سوات کا دورہ بھی کیا۔ ملالہ کے اس مختصر دورے کو یادگار قرار دیا جا رہا ہے۔
بچوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ملالہ یوسفزئی کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہو چکی ہے تاہم پاکستان کے کچھ قدامت پسند حلقے انہیں ’مغربی ایجنٹ‘ قرار دیتے ہوئے ان کے کام کو پاکستان کے لیے ’باعث شرم‘ بھی قرار دیتے ہیں۔
اسلام آباد میں پاکستان ایوی ایشن اتھارٹی کی اہلکار روبینہ ملک نے ڈی پی اے سے گفتگو میں تصدیق کی کہ ملالہ یوسفزئی پیر کی صبح قطر ایئر ویز کی ایک پرواز سے دوحہ روانہ ہو گئیں۔ ملالہ گزشتہ ہفتے بدھ کی رات اسلام آباد پہنچیں تھیں۔ تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان کے اس دورے کی تفصیلات کو خفیہ ہی رکھا گیا۔
ملالہ یوسفزئی کے کزن محمد الحسن نے ڈی پی اے سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے ملالہ کے ساتھ ’مختصر مگر یادگار وقت‘ گزارا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملالہ کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا اور ملالہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئندہ برس دوبارہ پاکستان آئیں گی۔
ملالہ ساڑھے پانچ سال بعد سوات میں
نوبل امن انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی برسوں بعد ہفتہ اکتیس مارچ کو واپس اپنے آبائی شہر سوات پہنچ گئیں، جہاں قریب چھ برس قبل پاکستانی طالبان نے ایک حملے میں انہیں زخمی کر دیا تھا۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
پانچ برس کا طویل انتظار
ملالہ یوسف زئی ہفتہ کے روز صبح ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنے آبائی علاقے سوات پہنچیں۔ اس موقع پر اُن کے والد ضیاءالدین یوسفزئی،والدہ تورپیکئی، دونوں بھائی اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب بھی اُن کے ہمراہ تھیں۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
پرانا کمرہ اور پرانی یادیں
سن 2012 سے برطانیہ میں مقیم ملالہ یوسف زئی ساڑھے پانچ سال بعد جب آبائی شہر میں واقع اپنے گھر پہنچیں تو آبدیدہ ہو گئیں۔ ملالہ کے خاندانی ذرائع کے مطابق ملالہ کے والدین اور بھائی بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے۔ ملالہ یوسف زئی نے کچھ دیر کے لیے اپنے کمرے میں قیام بھی کیا۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
اسکول کا دورہ اور پرانی سہیلیوں سے ملاقات
سوات پہنچنے پر مقامی لوگوں نے ملالہ یوسف زئی کا پرتپاک استقبال کیا اور اُن کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ اپنے آبائی گھر میں کچھ دیر قیام کے بعد ملالہ اپنے اسکول بھی گئیں، جہاں اپنی سہیلیوں سے ملاقات کی اور ان سے باتیں کیں۔ ملالہ کے دورے کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ میڈیا کو بھی دور رکھا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
’واپس ضرور آؤں گی‘
ملالہ اپنے مختصر دورہ سوات کے دوران کیڈٹ کالج بھی گئیں، جہاں پر کالج کے پرنسپل اور دیگر اسٹاف نے ان کا بھر پور استقبال کیا۔ ملالہ یوسف زئی نے کیڈٹ کالج میں طلباء سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے طلباء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا سوات آنے کا پختہ ارادہ ہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس سوات آئیں گی، ’’اس وادی جیسی خوبصورت ترین وادی دنیا میں کہیں بھی نہیں، سوات آکر بہت خوشی محسوس کررہی ہوں‘‘۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
’اپنی ثقافت پر فخر ہے‘
ملالہ یوسف زئی نے کیڈٹ کالج کی وزیٹر بک میں اپنے پیغام میں لکھا کہ ساڑھے پانچ سال بعد اپنے پہلے دورہ سوات کے موقع پر وہ بہت خوش ہیں، ’’ مجھے اپنی سرزمین اور یہاں کی ثقافت پر فخر ہے، کیڈٹ کالج بہت ہی خوبصورت ہے اور میں کالج کے پرنسپل اور اسٹاف کی انتہائی مشکور ہوں۔‘‘
تصویر: DW/Adnan Bacha
’ملالہ کے منتظر تھے‘
لوگوں کی اکثریت ملالہ کی پاکستان آمد سے نہ صرف خوش ہے بلکہ انہیں نیک خواہشات کے ساتھ خوش آمدید بھی کہہ رہی ہے۔ تاہم دوسری طرف کچھ حلقے ملالہ کے دورہ سوات کو بھی تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ سماجی کارکن ڈاکٹر جواد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں ملالہ پر فخر ہے، ملالہ کی جدوجہد نے یہاں پر بچیوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا کی۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
ہمت نہیں ہاری
ملالہ یوسفزئی کو 2012ء میں سوات ہی میں تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں نے ایک مسلح حملے کے دوران سر میں گولی مار کر زخمی کر دیا تھا اور اس حملے کے چند روز بعد ہی انہیں علاج کے لیے برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
ہمت و بہادری کی مثال
پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت ملالہ یوسفزئی کو ہمت، بہادری اور پاکستانی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی علامت قرار دیتے ہوئے انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، جس کا کئی دیگر شواہد کے علاوہ ایک ثبوت انہیں دیا جانے والا امن کا نوبل انعام بھی ہے۔