1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملالہ پر حملہ کرنے والا گروپ گرفتار

شکور رحیم/ اسلام آباد12 ستمبر 2014

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم نے کہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی اور انکی ساتھی طالبات پر حملہ کرنیوالے شدت پسندوں کے دس رکنی گروہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

ترجمان نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ملک میں جاری موجودہ سیاسی بحران سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ فوجی ترجمان نے جمعے کے روز راولپنڈی میں ایک پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ ملالہ اور انکی ساتھی طالبات کائنات اور شازیہ پر حملہ کر کہ انہیں زخمی کرنیوالوں کا تعلق انتہا پسند طالبان کے" شوری" نامی گروہ سے ہے۔

اس گروہ کے تمام اراکین کا تعلق مالاکنڈ سے ہے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے اسرارالرحمان نامی شدت پسند کو حراست میں لیا گیا گیا ۔ ترجمان کے مطابق اس گروہ کا سرغنہ ظفر اقبال تھا اور یہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے کہنے پر عمل کر رہا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ان افراد کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا جہاں ان پر مقدمہ چلے گا۔ خیال رہے کہ اس وقت برطانیہ میں مقیم پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی اور اسکی ساتھی طالبات پر شدت پسندوں نے 2012 ء میں مینگورہ میں اس وقت حملہ کیا تھا جب وہ ایک وین میں سوار ہو کر اپنے سکول جارہی تھی۔ میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ ملا فضل اللہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے اور یہ معاملہ ہر سطح پر افغانستان کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔

ملالہ کی ساتھی شازیہ رمزہتصویر: DW

آئی ایس پی آر کے ترجمان نے بتایا کہ بلوچستان میں قائد اعظم ریذیڈینسی پر حملہ کرنے والے شدت پسند بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔ ملک میں جاری سیاسی صورتحال کے حوالے سے میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ موجودہ سیاسی صورتحال سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کواس معاملے میں ملوث کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ شاہراہ دستور پر پانچ عمارتوں کی حفاظت فوج کے حوالے کی گئی ہے جن میں سرکاری ٹی وی(پی ٹی وی) کی عمارت شامل نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی سکیورٹی کی وجہ سے ہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا انعقاد ممکن ہو سکا۔

دوسری جانب پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں جاری حکومت مخالف دھرنوں میں دہشت گردی کے خطے کے پیش نظر شہر میں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہ پابندی ابتدائی طور پر دس روز کے لیے ہوگی لیکن صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مدت میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ صحافی، خواتین اور کمسن بچے اس پابندی سے مستثنٰی ہوں گے۔

گروہ کا سرغنہ ظفر اقبال تھا اور یہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے کہنے پر عمل کر رہا تھاتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

سرکاری ٹی وی کے مطابق یہ اقدام خفیہ اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شدت پسندوں کی جانب سے اسلام آباد میں تحریک انصاف اورعوامی تحریک کے دھرنوں کو نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ہے۔

حساس اداروں کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ کو ایک مراسلے کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ پانچ سے چھ دہشت گرد دھرنوں کے شرکاء کو نشانہ بنانے کے لئے موقع کی تلاش میں ہیں۔ حساس اداروں کے مراسلے کے مطابق دہشت گردوں کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے اور ان کے منصوبے کے بارے میں علم ان کے درمیان کی جانے والی ٹیلی فونک گفتگو کا سراغ لگانے سے ہوا۔

اسی دوران پاکستان عوامی تحریک نے حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق عوامی تحریک کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور مجلس وحدت المسلمین کے ایک راہنما ء اسد علی شاہ کی گرفتاری کے خلاف احتجاجاً مذاکرات سے انکار کیا گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں