1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتملاوی

ملاوی، افریقہ میں غیر قانونی مہاجرت کی راہداری

20 نومبر 2022

شمالی ملاوی میں ایک اجتماعی قبر کی دریافت نے اس افریقی ملک میں غیر قانونی مہاجرت کے سنگین مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔ ایتھوپیا سے جنوبی افریقہ کا سفر کرنے والے افراد ملاوی کا پر خطر راستہ اپناتے ہیں۔

Tigray-Konflikt | Flüchtlinge im Sudan
تصویر: Marwan Ali/AP/picture alliance

مہاجرت اور انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقی ریاست ملاوی کی غیر محفوظ سرحدیں ایتھوپیا جیسے دوسرے افریقی ممالک  سے آنے والے مہاجرین کے لیے اہم راہداری بن رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ ملاوی کے شمالی مزیمبا علاقے کے ایک جنگل میں ایک اجتماعی قبر میں 30 لاشوں کی دریافت نے نقل مکانی کے بحران کے خدشات کو جنم دیا۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق ملاوی غیر ملکیوں کو جنوبی افریقہ جیسے ممالک میں سمگل کیے جانے کے لیے ایک راہداری بن گیا ہےتصویر: Bernardo Jequete/DW

ملاوی کے محکمہ امیگریشن سے تعلق رکھنے والے پاسکولی زولو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وہ (مردہ افراد) ایتھوپیا کے شہری ہیں۔‘‘ زولو کے مطابق اس واقعے کی ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ مردہ پائے گئے نوجوان ایتھوپیا کے تارکین وطن تھے۔ ملاوی کے اس سرکاری اہلکار کا کہنا تھا، ''کچھ کے پاس ایتھوپیا کی شناخت اور ایتھوپیا اور جنوبی افریقہ کے رشتہ داروں کے رابطے تھے۔‘‘

افریقہ کو مضبوط بنا کر وہاں سے ہجرت کو روکا جائے، یورپی یونین

ملاوی کی پولیس کے ترجمان پیٹر کلایا نے بھی ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ تارکین وطن کا ایک وین میں  دوران سفر  دم گھٹ گیا ہو گا جس کے بعد تفتیش کار اب ان اموات کو انسانوں کی اسمگلنگ کے ایک ممکنہ کیس کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

کلایا نے کہا، ''ہمیں شبہ ہے کہ یہ لوگ شمال کے ممالک سے سفر کر رہے  تھےاور شاید جنوبی افریقہ جا رہے تھے کیونکہ ہم جب بھی اس طرح کے لوگوں کو روکتے ہیں تو وہ ہمیں ایسا ہی بتاتے ہیں۔‘‘

مراکش: یورپ کا رُخ کرنے والے مہاجرین کے خلاف کارروائی

انسانوں کی اسمگلنگ کے لیے راہداری

اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (یو این ایچ سی آر) نے تصدیق کی ہے کہ ملاوی غیر ملکیوں کو جنوبی افریقہ جیسے ممالک میں سمگل کیے جانے کے لیے ایک راہداری بن گیا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے ایک اہلکار کینی ایمانوئل لوکاجو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے اوسطاً ہر ماہ 200 سے 400 کے درمیان سیاسی پناہ کے متلاشیوں کا اندراج کیا ہے۔‘‘

یو این ایچ سی آر اب ملاوی میں پناہ گزینوں اور ان کی نقل و حرکت سے منسلک خطرات کے بارے میں آگاہی مہم چلا رہی ہےتصویر: Michael Runkel/imageBROKER/picture alliance

 ملاوی پولیس نے جولائی میں تنزانیہ کی سرحد سے بیالیس ایتھوپیائی باشندوں کو ملاوی لے جانے والے ایک ٹینکر ٹرک کو قبضے میں لے لیاتھا۔ دریں اثناء مقامی  پولیس کے مطابق اس سال جنوری اور ستمبر کے مہینوں کے درمیان انہوں نے کم از کم 221 تارکین وطن کو روکا جن میں سے 186 ایتھوپیائی تھے۔

ملاوی حکومت بھی  ایتھوپیا کے تقریباً 600 شہریوں کو واپس بھجوانے کے مرحلے  میں ہے، جنہیں اس وقت سکیورٹی ایجنسیوں نے حراست میں رکھا ہے۔ ان میں سے 198 کو اگست سے اب تک گھر بھیج دیا گیا ہے۔

سمندر میں پیدا ہوئے درجنوں بچے آنکھ کھولتے ہی مہاجر بن گئے

لوکاجو نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ''ان میں سے کچھ (تارکین وطن) یہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں ملازمت کہاں مل سکتی ہے، ان میں سے کچھ کو اپنے ملک میں مشکلات کی وجہ سے تشویش ہو سکتی ہیں اور وہ یہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کہاں جا سکتے ہیں ۔‘‘

یو این ایچ سی آر اب ملاوی میں پناہ گزینوں اور ان کی نقل و حرکت سے منسلک خطرات کے بارے میں آگاہی مہم چلا رہی ہے۔ لوکاجو نے کہا، ''ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ اس بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے کہ اسمگلنگ کے مسائل اور خطرات کیا ہو سکتے ہیں ۔‘‘

ایتھوپیا کے شورش زدہ علاقے تیگرائی میں حالیہ امن معاہدہ ہونے سے قبل حالات کافی خراب تھے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ جان بچانے کے لیے دیگر ممالک کا رخ کر رہے تھےتصویر: Tiksa Negeri /REUTERS

ایتھوپیا کےشہری کیوں بھاگ رہے ہیں؟

ایتھوپیا کے دارلحکومت ادیس ابابا میں ایک غیر سرکاری جرمن تنظیم  فریڈرش ایبرٹ شٹفٹنگ میں  فلائٹ اینڈ مائیگریشن کمپیٹنس سینٹر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر گرماچیو اڈوگنا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنگ، سیاسی عدم استحکام، شدید غربت اور سماجی و ثقافتی پسماندگی جیسے عوامل عام شہریوں خاص طور پر نوجوانوں کو ایتھوپیا سے بھاگنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

اڈوگنا کے مطابق، حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اندرونی نقل مکانی بھی نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''جہاں  معاشی عوامل کا ایک کردارہے، وہیں سماجی عوامل بھی نوجوانوں کے لیے اس خطرناک راستے کے انتخاب میں کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘

اپنے ملک سے فرار ہونے والے بہت سے ایتھوپیائی براعظم افریقہ کے جنوب کی طرف جاتے ہیں۔ اڈوگنا نے کہا کہ ان کے جنوبی افریقہ کے سفر کا مطلب ہے کہ انہیں ملاوی، کینیا، تنزانیہ، زیمبیا، موزمبیق اور زمبابوے جیسے ممالک سے گزرنا ہوگا۔

انہوں نے اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''بہت سے تارکین وطن جو اس راستے کا استعمال کرتے ہیں وہ جنوبی ایتھوپیا کے علاقوں سے آتے ہیں، جہاں اسمگلر انہیں سہولت فراہم کرتے ہیں۔ اپنے پورے سفر میں یہ نوجوان، ناتجربہ کار لڑکے، جن ناقابل بیان حالات سے گزرتے ہیں۔ یہ غیر انسانی ہے۔ ایسا 1990 ءکی دہائی میں شروع ہوا۔‘‘     

غیر موثر سرحدی نگرانی

انسانی حقوق کے ماہرین موجودہ صورت حال کا ذمہ دار غیر معروف سڑکوں کے ذریعے ملاوی میں داخل ہونے والے تارکین وطن کا پتہ چلانے  کے لیے نگرانی کے سخت نظام کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔

ملاوی کے حکام تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا سرحدی حفاظت کا نظام غیر قانونی نقل وحرکت روکنے کے لیے کافی نہیںتصویر: Michael Runkel/imageBROKER/picture alliance

ملاوی صحارا، ڈرائیور تارکین وطن کو صحرا کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا کے انسانی حقوق کمیشن (ایم ایچ آرسی) میں شہری اور سیاسی حقوق کے ڈائریکٹر پیٹر چیسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملاوی اور ایتھوپیا کی حکومتیں اس میں ملوث ہیں۔ یہ ملاوی کے کردار کے حوالے سے بھی کئی سوالات اٹھاتا ہے جو لوگوں کے دوسرے ممالک سے گزرنے کا راستہ ہے۔‘‘

 صحارا، ڈرائیور تارکین وطن کو صحرا کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا

چیسی کے مطابق بڑھتی ہوئی تشویش کو دور کرنے اور اس طرح کے واقعات کے بار بار دہرائے جانے سے روکنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ ملاوی امیگریشن کے ترجمان زولو نے تصدیق کی کہ ان کی تنظیم کے عملے کو خفیہ امیگریشن پر قابو پانے کی کوشش میں مسلسل مشکلات کا سامنا ہے۔ انہون نے کہا،''جی ہاں، ہم سرحدوں کے غیر محفوظ ہونے سے اتفاق کر سکتے ہیں، لیکن ہمارے پاس ایسے کئی کیسز بھی ہیں جن میں ہم نے گرفتاریاں عمل میں لائیں۔‘‘

بین الاقوامی تعلقات کے ماہر میکلان کنیانگوا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک میں پناہ لینے کے خواہشمند افراد کے لیے ملاوی حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ''ہم ایک عالمی گاؤں میں رہ رہے ہیں لہذا وہاں لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت ہو گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں چوکس رہنے کی ضرورت ہے کہ ہماری سرحدوں سےکون گزرتا ہے اور ان کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی جائے۔‘‘

  ش ر⁄ ش ح (آئزک کالیدزی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں