1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملاّ فضل اللہ، پاکستانی طالبان کا نیا قائد

امجد علی7 نومبر 2013

تحریک طالبان پاکستان نے ملاّ فضل اللہ کو اپنا نیا سربراہ منتخب کر لیا گیا ہے۔ اب تک کا سربراہ حکیم اللہ محسود گزشتہ ہفتے ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ اس تنظیم نے حکومت کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

23 جولائی 2010ء کی اس تصویر میں ایک پاکستانی صحافی پشاور میں ملاّ فضل اللہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک ویڈیو دیکھ رہا ہے
23 جولائی 2010ء کی اس تصویر میں ایک پاکستانی صحافی پشاور میں ملاّ فضل اللہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک ویڈیو دیکھ رہا ہےتصویر: A. Majeed/AFP/Getty Images

طالبان کے عبوری رہنما عصمت اللہ شاہین نے شمال مغربی پاکستان کے ایک نامعلوم مقام سے ایک پریس کانفرنس میں کہا:’’اب فضل اللہ TTP (تحریک طالبان پاکستان) کا نیا سربراہ ہے۔ یہ فیصلہ آج شوریٰ کے ایک اجلاس کے موقع پر کیا گیا ہے۔‘‘

ساتھ ہی اس عسکریت پسند تنظیم نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات نہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا:’’اب کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے کیونکہ ملاّ فضل اللہ پہلے ہی پاکستانی حکومت کے ساتھ بات چیت کے خلاف ہے۔‘‘

ملاّ فضل اللہ نے ہی 2007ء سے لے کر 2009ء تک پاکستان کی شمال مغربی وادیء سوات پر طالبان کے دو سالہ آمرانہ دورِ اقتدار کی قیادت کی تھی۔ اس دوران اس علاقے میں اسلامی شرعی قوانین نافذ کیے گئے تھے اور سرِ عام سر قلم کرنے، جرائم کے مرتکب افراد کو کوڑے مارنے اور تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کے واقعات ایک معمول بن گئے تھے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران تحریک طالبان پاکستان کے متعدد اہم رہنما ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیںتصویر: AP

اس جابرانہ دور کو بعد ازاں پاکستانی فوج نے ایک آپریشن کرتے ہوئے ختم کیا تھا اور اس وادی پر پاکستانی حکومت کا کنٹرول پھر سے بحال کیا تھا۔ اس اعلان کی خوشی میں قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے مرکزی شہر میران شاہ میں طالبان کارکنوں اور حامیوں نے کُھل کر ہوائی فائرنگ کی۔

ملاّ فضل اللہ کے سر کی قیمت پہلے پچاس لاکھ مقرر کی گئی تھی، جسے بعد ازاں بڑھا کر پانچ کروڑ روپے کر دیا گیا تھاتصویر: AP

اس سے پہلے مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں جن پانچ افراد کے ناموں پر غور کیا گیا، اُن میں ملاّ فضل اللہ کے ساتھ ساتھ خان سید سجنا، شیخ خالد حقانی، عمر خالد خراسانی اور حافظ سعید شامل تھے۔ شوریٰ نے کثرتِ رائے سے ملاّ فضل اللہ کو اپنا نیا امیر منتخب کر لیا۔ تحریک طالبان کی مجلسِ شوریٰ بیس سے پچیس اراکین پر مشتمل ہے۔ اس میں طالبان کے تمام گروپوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔

ملا فضل اللہ کے سر کی قیمت حکومت پاکستان نے پہلے پچاس لاکھ روپے مقرر کی تھی، جسے بعد ازاں بڑھا کر پانچ کروڑ کر دیا گیا تھا۔ فضل اللہ نے سن 2009 میں فوجی آپریشن کے دوران فرار ہو کر افغان صوبے کنڑ پناہ لی تھی اور اطلاعات کے مطابق وہ ابھی بھی کنڑ اور نورستان صوبے میں کہیں مقیم ہے۔

افغان صوبے کنڑ سے ملحقہ سرحد کے دورے سے واپسی پر ہی پاکستانی فوج کے میجر جنرل ثنا اللہ نیازی کو ایک بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس حملے کو بھی ملا فضل اللہ کے کارکنوں کی کارروائی خیال کیا جاتا ہے۔

گزشتہ جمعے کے روز حکیم اللہ محسود اُس وقت ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا، جب اسلام آباد حکومت کے نمائندے امن مذاکرات شروع کرنے کی غرض سے ٹی ٹی پی کے ساتھ ملاقات کی تیاریاں کر رہے تھے۔

اس ڈرون حملے پر پاکستانی حکومت کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا اور پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واشنگٹن حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں