1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملا منصور کی ہلاکت، افغان امن کے لیے ’اہم سنگ میل‘، اوباما

بینش جاوید23 مئی 2016

امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ امریکی فضائی حملے کے ذریعے طالبان لیڈر ملا اختر منصور کی ہلاکت امریکا کے دشمنوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ ’’امریکا ہر صورت میں اپنے لوگوں کا دفاع کرے گا۔‘‘

Deutschland Barack Obama Rede in Hannover
صدر اوباما نے کہا ہے کہ ملا اختر منصور نے افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے تمام اقدامات کو مسترد کر دیا تھاتصویر: Reuters/K. Lamarque

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے کہا ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ صدر اوباما نے اپنے ویت نام کے پہلے دورے کے دوران ملا اختر منصور کی ہلاکت کے حوالے سے کہا، ’’یہ وہ شخص تھا، جو طالبان کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے افغانستان میں موجود امریکی افواج کو نشانہ بنا رہا تھا۔‘‘ افغانستان میں امریکی افواج ’’انسداد دہشت گردی اور افغان افواج کی تربیت‘‘ کے لیے تعینات ہیں۔ امریکی صدر نے افغانستان سے جنگی مشن سن 2014 میں ختم کر دیا تھا۔

ملا اختر منصور پاکستان کے صوبے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ڈرون حملہ جمعے یا ہفتے کے روز ہوا۔ ویتنامی صدر سے ملاقات کے بعد صدر اوباما نے پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’امریکا افغانستان میں روز مرہ کے فوجی آپریشنز کا حصہ نہیں ہے، ہمارا کام افغانستان کو اپنا دفاع کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔‘‘


امریکی صدر کے بیان کے بعد اس موضوع پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے دیکھنے میں آئے۔

صدر اوباما نے یہ بھی کہا کہ ملا اختر منصور نے افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے تمام اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ پریس کانفرنس کے آغاز سے پہلے صدر اوباما کی جانب سے جاری تحریری بیان میں کہا گیا، ’’طالبان کو افغان حکومت کے امن عمل کا حصہ بننا چاہیے تاکہ افغانستان میں دیرپا امن و استحکام آسکے۔‘‘

واضح رہے کہ ایران کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان لیڈر ملا ختر منصور ایران کے راستے سے پاکستان نہیں پہنچا۔ دوسری جانب پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ڈرون حملے میں مارے جانا والا شخص جسے ملا اختر منصور بتایا جا رہا ہے، وہ ایران کے راستے سے پاکستان داخل ہوا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں