رات کے اس پہر مچھروں کی بھنبھناہٹ جینا دوبھر کر رہی ہے اور بجلی سرے سے غائب ہے۔ ان حالات میں معمولاتِ زندگی بھی کسی فقیر کی بد دعا سے کم نہیں لگتے۔ نہ رات کی نیند میسر ہے نہ دن کا چین۔ اوپر سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کر رکھی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اس مشکل وقت میں گزر اوقات کس ڈھنگ سے کیا جائے۔ مہنگائی ہر روز کے حساب سے بھیانک سے بھیانک تر ہوتی جا رہی ہے۔ اگرحالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو وللہ اعلم آنے والا کل کیسا ہوگا؟
ابھی اسی تناظر میں اپنے خیالات کے گھوڑے دوڑا رہی تھی کہ فون پر ایک پیغام موصول ہوا۔ یہ پیغام ایک پرانے واقف کار کی جانب سے تھا۔ ان کا تعلق ایک سفید پوش گھرانے سے ہے جہاں انہوں نے محنت مشقت کرکے تعلیم اور روزگار اس لیے حاصل کیا کہ ان کا اور ان کے اہلِ خانہ کا وقت بدل جائے گا۔ رات کے اس پہر ان کے پیغام نے مجھے اچھنبے میں ڈال دیا۔ میں اسی تذبذب کا شکار تھی کہ یہ پیغام رسانی کا کون سا وقت ہے لیکن پھر موجودہ ہنگامی صورتحال کا خیال آیا اور میں نے بالاخر ان کا پیغام پڑھنے کے ارادے سے دوبارہ فون اٹھا لیا ۔
’ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ سیلابی ریلے نے ہمارا گھر بار، مال مویشی سب نگل لیے ہیں۔ ہم سب کھلے آسمان تلے بے سرو سامانی کی حالت میں آپ کی دعاوں اور مدد کے منتظر ہیں۔‘ مجھے یہ پڑھ کے تھوڑا جھٹکا لگا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ کسی جاننے والے پر ایسی افتاد آ پڑی ہو۔ اس وقت کیا کر سکتے ہیں کچھ سمجھ نہیں آیا۔ لیکن میری پریشانی بہت بڑھ گئی۔ بے سر و سامانی بھی شاید اپنے کسی پیارے کی موت کی مانند ہوتی ہے۔ اس کا دکھ غالباً تب ہی سمجھ میں آتا ہے جب ایسے حالات خود پر یا کسی قریبی انسان پر گزرتے ہیں۔ اس سے پہلے میں نے بالکل بھی اس بارے میں غور نہیں کیا تھا لیکن میں اب سوچنے پر مجبور تھی کہ اب ان کا کیا ہوگا۔ نہ جانے کس پہر میں نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ جب آنکھ کھلی تو سورج اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔
ایک نئے دن کا آغاز ہوچکا تھا لیکن سوچیں وہی پرانی گزشتہ رات سے پیوستہ تھیں۔ ہمارے پیارے وطن میں جب بھی کوئی آفت آتی ہے نہ جانے کیوں اس کا شکار ہمیشہ عام آدمی ہی ہوتا ہے۔ اسی کو بتایا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا عذاب اس کے برے کاموں کی وجہ سے اس پر آیا ہے۔البتہ اشرافیہ اس سے ہمیشہ محفوظ ہی رہتے ہیں۔ ان پر عذاب اتنے آرام سے نازل نہیں ہوتا۔ نہ ان کے گھروں کی چھت گرتی ہے اور نہ ہی ان کے اپنے ڈوب کر مرتے ہیں۔ کچھ عرصے قبل میرا سنگاپور جانا ہوا۔ میں نے پانچ دن میں وہاں اتنی بارش دیکھی کہ اگر ایسی بارش پانچ دن لگاتار کراچی میں ہوتی تو پورا شہر ڈوب گیا ہوتا۔ لیکن مناسب لائحہ عمل اور بہتر شہری انفرا سٹرکچر کی بدولت سنگا پور میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہر سال ایک مہینے کی بارشوں میں ہوجاتا ہے۔ پچھتر سال میں ہم نکاسی آب کا نظام نہ درست کر سکے۔ اس وقت قریباً ایک تہائی پاکستان زیرِ آب ہے لیکن اہلیانِ کراچی کے نلکوں میں بدستور صاف پانی ناپید ہے۔ ہم ہر سال سڑکیں بناتے ہیں جو مون سون میں بہہ جاتی ہیں۔ بجلی ہمارے گھروں میں آئے یا نہ آئے۔ برسات میں تاریں ٹوٹنے سے سڑکوں پر ضرور لوگوں کی جان لے لیتی ہے۔ ایک گھنٹے کی بارش میں بھی کئی اموات واقع ہو جاتی ہیں۔ پورا شہری نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور پھر ہم بیرونی امداد کے منتظر ہوتے ہیں کہ وہ ملے تو ہماری زندگی کی گاڑی آگے بڑھے۔
17جنوری 1995 کو جاپان میں شدید زلزلے کے باعث کوبے شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا لیکن ہمارے بر عکس جاپان کا مکمل انحصار اپنی حکومت اور عوام پر رہا۔ جاپانیوں نے تمام بیرونی امداد کو مسترد کیا اور 1997 تک خود انحصاری کے تحت کوبے شہر کو ایک بار پھر سے رواں دواں کردیا۔
آخر ہم کب اس قابل ہوں گے کہ خود پر انحصار کر سکیں؟ ہمیں ایک زندہ قوم بننے کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ ہم کب سنگا پور اور جاپان کی طرح اپنے ملک کو خود سنواریں گے۔ یہ سوالات ذہن میں ابھرتے تو ضرور ہیں لیکن ان کے جوابات ابھی میرے پاس نہیں۔ ابھی تک تو ہم اس کشمکش سے باہر نہیں آئے کہ آٹا کیوں اتنا مہنگا ہوگیا ہے اور اس قلیل تنخواہ میں مہینے کا گزارہ کیسے ہوگا؟
کیا ہی خوب ہوکہ ہمارا بھی شمار دنیاکی زندہ قوموں میں ہونے لگے۔ من حیث القوم ہمارے درمیان بھی یکجہتی، بھائی چارا، ذہنی اور لسانی ہم آہنگی قائم ہو۔ ہم بھی ذاتی مفادات پسِ پشت رکھ کر قومی مفاد میں غور و خوض اور فیصلوں کے قابل بن جائیں۔ ہم بھی جعلی ڈگریاں ترک کر کے معیارِ تعلیم کو بلند کرنے کے خواہاں بنیں۔ محنت کرنا ہم پر گراں نہ گزرے اور ہم اس کے عادی بن جائیں۔ انفرادیت سے زیادہ توجہ اجتماعیت پر دینے کے قابل بنیں۔
پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے جہاں اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی، سیاسی ،سماجی ، اخلاقی اور نہ جانے مزید کن کن اقسام کے بحران ہمارے اندر پیدا ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تمام اختلافات بھلا کر ملکی سلامتی کے موقف پر سنجیدگی سے غور کریں اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کے قابل بنیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔