ملٹی وٹامن کا استعمال مفید نہیں
11 اکتوبر 2011امیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے Archives of Internal Medicine میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان سپلیمنٹس میں آئرن سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہے جبکہ کیلشیم سے جلد موت کا کم خطرہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ 20 ارب ڈالر مالیت کی وٹامن سپلیمنٹ صنعت کا امریکی شہریوں کی عمریں بڑھانے میں کوئی کردار ہے یا نہیں۔ نصف سے زائد امریکی باشندے کسی نہ کسی طرح کی وٹامن گولیاں استعمال کرتے ہیں۔
محققین نے Iowa Women's Health Study کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جن میں 62 سال اوسط عمر کی 38 ہزار سے زائد خواتین کے پُر کیے ہوئے سروے بھی شامل تھے۔ ان خواتین نے 1986، 1997 اور 2004 میں سپلیمنٹس کے استعمال کی اطلاع دی تھی۔ سپلیمنٹس استعمال کرنے والی خواتین کا طرز زندگی صحت مندانہ تھا اور وہ تمباکو نوشی سے پرہیز کرتی تھیں، کم تیل والی غذائیں کھاتی تھیں اور باقاعدگی سے ایکسر سائز کرتی تھیں۔ مگر اکثر واقعات میں ان کی موت اپنی اُن ہم عمر خواتین سے جلد ہوئی جو سپلیمنٹس استعمال نہیں کرتی تھیں۔
محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سپلیمنٹس کے استعمال سے لوگوں کی عمریں طویل کرنے میں کوئی مدد نہیں مل رہی۔ تاہم ان کے استعمال سے مجموعی ہلاکتوں یا کسی بھی وجہ سے مرنے کے زیادہ خطرے کے درمیان تعلق ابھی اتنا واضح نہیں ہے۔
تحقیق میں شامل یونیورسٹی آف ایسٹرن فن لینڈ اور یونیورسٹی آف منیسوٹا کے محققین نے جریدے میں لکھا، ’’بہت سے عام استعمال ہونے والے غذائی اور وٹامن سپلیمنٹس یعنی ملٹی وٹامن، وٹامن بی سِکس، فولک ایسڈ اور منرلز یعنی آئرن، میگنیشیم، زنک اور کاپر کے استعمال سے ہلاکت کا زیادہ خطرہ دیکھا گیا۔‘‘
محققین نے کہا کہ دستیاب شواہد کی بناء پر غذائی سپلیمنٹس کے وسیع اور بڑے پیمانے پر استعمال کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی اور صرف قدرتی غذاؤں کا استعمال ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان نتائج سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ بعض سپلیمنٹس جیسے کہ وٹامن ای، وٹامن اے اور بیٹا کیروٹین جسم کے لیے مضر ہو سکتے ہیں۔ اس لیے وٹامنز اور منرل سپلیمنٹس کا استعمال ایسے افراد کے لیے تجویز نہیں کیا جا سکتا، جو غذائی قلت کا شکار نہیں ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی