برصغیر پاک و ہند کی مشہور و معروف گلوکارہ نورجہاں 23 دسمبر سن 2000 کو رحلت پا گئی تھیں۔ وہ اکیس ستمبر سن 1925 میں برٹش انڈیا کے صوبے پنجاب کے شہر قصور میں پیدا ہوئیں تھیں۔ انہوں نے پچھتر برس کی عمر پائی۔
اشتہار
ملکہٴ ترنم نورجہاں کو گو اس جہاں سے گزرے ہوے سترہ برس ہو چکے ہیں لیکن ان کی آواز آج بهی زندہ ہے اور ہمیشہ ہماری سماعتوں میں رس گهولتی رہے گی۔ موسیقار نوشاد کےبقول ’الله نے جو آواز ملکہٴ ترنم نورجہاں کو عطا فرمائی وه کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی‘۔
خوبصورت آواز کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی کی باقاعده تعلیم اور بےپناہ ریاض یا مشق نے ان کو قدرت کی جانب سے ودیعت کردہ گائیکی کی صلاحیتوں کو جِلا بخشی۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم بچپن سے حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔
اُن کے ابتدائی اساتذہ میں ایک نام غلام نبی چشتی کا ملتا ہے اور ان ہی کی کوششوں سے وہ لاہور منتقل ہوئیں۔ غلام نبی چشتی پنجابی موسیقار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ فلم نگری میں داخل ہونے سے قبل چھوٹی عمر ہی میں انہوں نے موسیقی کی مختلف محفلوں میں گیت گانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ کئی ماہرین موسیقی کا کہنا ہے کہ جتنی بڑی وہ گلوکارہ تھیں، انہیں بظاہر اُس مرتبے کا کوئی استاد نہیں ملا۔
ملکہٴ ترنم نورجہاں برصغیر پاک و ہند کے عظیم مغنی و گائیک استاد بڑے غلام علی خان کو اپنا باقاعدہ استاد تسلیم کرتی رہی ہیں۔ تاہم بعض ماہرین کے مطابق یہ ایک روحانی تعلق تھا۔ اس طرح پٹیالہ اسکول کے رنگ کو ان کی گائیکی میں خیال اور ٹھمری کے ساتھ ساتھ غزل اور گیت میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے ماہرینِ موسیقی کا اتفاق ہے کہ ملکہٴ ترنم نورجہاں کے گانے کے خوّاص کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ چند نمایاں خوبیوں میں آکار یعنی کهلے گلے سے گانا، الفاظ کی ادائیگی، نیچے اور اوپر کے سروں میں یکساں مہارت کے ساتھ گانا شامل ہیں۔
وہ ایسی پہلی گلوکارہ تھیں جنہوں نے کسی فلم کے لیے قوالی اور نظم (مجھ سے پہلی سے محبت) کو بھی اپنی مترنم آواز بخشی۔ وہ غزل بھی خوب نبھاتی تھیں لیکن فلموں کے لیے گیتوں میں وہ لاثانی تھیں۔ انہیں کلاسیکی موسیقی پر بھی عبور حاصل تھا۔ اُن کے کئی گیت خالص راگوں پر مشتمل ہیں لیکن اِن کو بھی اپنی مہارت اور مشق کی وجہ سے انتہائی سہل انداز میں گا کر امر کر دیا۔
پاکستان کے سارے رنگ لوک ورثہ کے ایک میلے میں
پاکستانی دارالحکومت میں لوک ورثہ کے زیر اہتمام ان دنوں ایک ایسا کئی روزہ سالانہ قومی میلہ جاری ہے، جس میں پاکستان بھر سے آئے ہوئے فنکار اور ماہر دستکار اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پانچ سو سے زائد فنکار اور دستکار
سات اپریل کو شروع ہونے والا یہ دس روزہ قومی لوک میلہ سولہ اپریل کو اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ اس میلے میں پاکستان کے مختلف صوبوں اور خطوں کی ثقافت کے نمائندہ پانچ سو سے زائد فنکار، لوک گلوکار اور دستکار حصہ لے رہے ہیں۔ اس تصویر میں ایک سندھی لوک گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ پس منظر میں پاکستان کے مشہور لوک فنکاروں کی تصاویر والی ایک بہت بڑی ڈرائنگ دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پتلی تماشہ
اس تصویر میں ایک خاتون ڈھولک کی تھاپ پر روایتی پتلی تماشے کے لیے ماحول پیدا کر رہی ہے۔ بڑی تعداد میں اس میلے کو دیکھنے کے لیے آنے والے مہمانوں کی خاطر ہر روز ایسی درجنوں نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن سے شرکاء پاکستانی ثقافت کے متنوع رنگوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ڈھول کی تھاپ پر دھمال
لوک ورثہ کمپلیکس میں بہت سے اسٹالوں کے عین درمیان میں سندھ سے آئے ہوئے لوک فنکار شائقین کے ایک ہجوم میں گھرے ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالتے ہوئے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دستکاری کے رنگا رنگ نمونے
اس لوک ورثہ میلے میں ہر قسم کی رنگا رنگ دستکاریوں سے بھرا یہ اسٹال صوبہ خیبر پختونخوا کے دستکاروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس میں کڑھائی، چھوٹے چھوٹے موتیوں اور شیشوں سے مزین بہت سی مصنوعات دیکھی جا سکتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ساگ اور مکئی کی روٹی
بہاولنگر سے تعلق رکھنے والی رقیہ بٹ نے بتایا کہ انہیں اسلام آباد آئے ہوئے سولہ سال ہو گئے ہیں۔ وہ پہلے صرف یہاں سالانہ میلے کے موقع پر ہی اسٹال لگانے آتی تھی لیکن پھر روزگارکی تلاش نے انہیں اسلام آباد میں مستقل رہائش کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ رقیہ بٹ نے بتایا کہ لوگ بڑے شوق سے ان کی مکئی کی روٹی اور ساگ کھاتے ہیں اور صبح دس بجے سے لے کر رات دس بجے تک وہ اپنے اسٹال پر بہت مصروف رہتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
آپ کے سامنے بنتے ہوئے مٹی کے دیے
صوبہ پنجاب کی پویلین میں ایک اسٹال پر موجود یہ دستکار وہاں موجود شائقین کے سامنے بڑی مہارت سے اپنے ہاتھوں سے مٹی کے دیے اور چھوٹے چھوٹے گلدان بنا رہا تھا اور دیکھنے والے حیران ہو رہے تھے کہ کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے گیلی مٹی مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہے، محض کسی ماہر دستکار کی انگلیوں کے لمس کے باعث۔
تصویر: DW/I. Jabeen
روایتی ’اندرسے‘
لوک میلہ پورے پاکستان کا ہو اور اس میں مختلف خطوں کے روایتی کھانوں اور مٹھائیوں کے اسٹال نہ ہوں، یہ ممکن نہیں۔ اس تصویر میں وہ گرما گرم روایتی ’اندرسے‘ تیار کیے جا رہے ہیں، جو خاص طور پر پنجاب کے دیہی علاقوں میں عوامی میلوں کے موقع پر بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
آرٹ رنگوں کی زبان ہے
ٹرک آرٹ کہلانے والا یہ فن نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ یورپ میں برطانیہ تک بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اس فن کے ماہر دستکار اپنے علاقوں کے حقائق کو دوسرے خطوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس تصویر میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والا ایک بزرگ فنکار ایک بڑے گلدان پر ٹرک آرٹ بنا رہا ہے۔ قریب پڑی کئی ہانڈیوں اور کرکٹ کے کئی بلوں پر بھی یہی آرٹ بنا ہوا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ہاتھ سے بنائی گئی جیولری گاہکوں میں مقبول
لاہور میں شالامار باغ کے علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون شہزادی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں لوک ورثہ کے اس سالانہ میلے میں اسٹال لگاتے کئی برس ہو گئے ہیں اور لوگ ہاتھ سے بنائی گئی جیولری بہت پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے لوک ورثہ میں ایک اسٹال چھ ہزار روپے ماہانہ پر مستقل کرائے پر لے رکھا ہے، جس سے انہیں اتنا منافع ہو جاتا ہے کہ ان کا اور ان کے اہل خانہ کا گزارہ ہو جاتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
چمڑے کے روایتی سینڈل
اس دکان پر بے شمار ڈیزائیوں میں ہاتھ سے بنائے گئے اور چمڑے پر کڑھائی والے وہ بہت سے چپل دیکھے جا سکتے ہیں، جو گرمیوں میں مردوں اور خواتین دونوں میں برابر مقبول ہوتے ہیں۔ اس سٹال پر موجود ایک سیلز مین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ویک اینڈ پر مہمانوں کا رش بہت زیادہ تھا اور آئندہ گرمیوں کے موسم کے پیش نظر عام لوگوں نے ایسے سینڈل بڑی تعداد میں خریدے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گلگت بلتستان، پاکستان کا موتی
اس میلے میں صوبے گلگت بلتستان کا بھی اپنا ایک پویلین ہے، جہاں اس صوبے کے مختلف علاقوں کی طرف سے اسٹال لگائے گئے ہیں۔ اس تصویر میں گلگت بلتستان کے ضلع گھانچے کی نمائندگی کرنے والی ایک خاتون مقامی طور پر قیمتی پتھروں اور موتیوں سے تیار کردہ رنگ برنگ زیورات کے ساتھ نظر آ رہی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
منفرد وادی ہنزہ
پاکستان کے شمال میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں ہنزہ کی وادی ایک ایسا خوبصورت علاقہ ہے، جہاں کے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پورے پاکستان میں اوسطا سب سے طویل العمر ہوتے ہیں۔ اس تصویر میں خواتین کے خوبصورت ملبوسات کے علاوہ ہنزہ کا شہد اور روایتی خوشبودار مصالحے اور جڑی بوٹیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ہر ڈیزائن کا کھسہ بنانے کا چیلنج
مسلسل بائیس برس سے اس میلے میں شرکت کرنے والے محمد رمضان عرف لالہ جی نے ایک کھسہ بناتے ہوئے بتایا کہ ان کا چیلنج ہے کہ وہ ہر طرز کا کھسہ بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے میلے کے منتظمین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر سال فنکاروں کو بلاتے ہیں، ان کے کھانے پینے اور رہائش کا مناسب انتظام کیا جاتا ہے اور یوں میلے کے مہمانوں کو ایک جگہ پر پورے پاکستان کے فنکاروں کو ملنے اور دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
لوک ورثے میں لوک موسیقی نمایاں
بات لوک ورثے کی ہو اور اس میں لوک موسیقی کو نمایاں جگہ نہ ملے، یہ تو ہو نہیں سکتا۔ اس تصویر میں لوک موسیقی کے ایک اسٹیج پر ایک فنکارہ گلوکاری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس میلے کی ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس میں شائقین کو سندھ اور بلوچستان سے لے کر پنجاب کے مختلف قصبوں اور شہروں سے آنے والے لوگ فنکاروں کی گائیکی سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل رہا ہے۔