1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملکی سالمیت میں کنڈوم کا کردار

شاہ زیب جیلانی
2 اکتوبر 2019

پاکستان میں لوگ دھڑا دھڑ بچے پیدا کرنے کے شوقین ہیں اور اس کام میں چین اور بھارت کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ ایسے میں قرضوں پر چلنے والے ایٹمی ملک کی سالمیت کو اصل خطرہ باہر سے ہوا یا اندر سے؟

Pakistan Bhit Sha Shah Abdul Latif Bhittai Grabstätte
تصویر: DW/S. Jillani

بھٹ شاہ شہر کے ایک گھر میں درجنوں خواتین جمع ہیں۔ کچھ کے ساتھ چھوٹے بچے ہیں، کچھ اپنی بڑی بوڑھیوں کے ہمراہ ہیں۔ چارپائیوں پر بیٹھی ان عورتوں کے بیچ  ایک خاتون کھڑی ہیں۔ ان کے سامنے ایک ڈبہ ہے، جس میں سے وہ ایک ہاتھ میں کنڈوم کا پیکٹ اور دوسرے میں انجیکشن کے ڈبے نکال کر انہیں دکھاتی ہیں،''یہ آپ کے شوہر کا وقفہ ہے اور یہ  آپ کا، جسے چھلّہ کہتے ہیں۔‘‘

اُن کی اس بات پر کچھ نوجوان مائیں ہنس کر اپنا منہ ڈھانپ لیتی ہیں تو کچھ جھینپ جاتی ہیں۔

لیکن شاہدہ سومرو کی لیے یہ ردعمل نیا نہیں۔ جس معاشرے میں جنسی تعلیم اور صحت پر بات کرنا 'بےحیائی سمجھا‘ جاتا ہو، وہاں ایسا ہوتا ہے۔

شاہدہ پچھلے تیرہ سال سے سندھ کے محکمہ بہبود آبادی میں لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں۔ ان کا کام خواتین کو مانع حمل کے بارے میں آگہی دینا اور انہیں سرکاری ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے مفت امداد دلوانا ہے۔

تصویر: DW/S. Jillani

شاہدہ کا کہنا ہے کہ اکثر عورتیں لگاتار بچے پیدا نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ یہ نہ ان کی صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے خاندان کے لیے۔ لیکن  وہ کہتی ہیں کہ، ''اگر عورت بچوں کی پیدائش میں وقفے کی بات کرے تو اُسے گھر والوں سے باتیں سُننا پڑتی ہیں۔"

"شوہر کہتا ہے کہ جب کما کر میں کھلا رہا ہوں تو تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ کبھی ساس سسُر اعتراض کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مانع حمل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش ہے، تو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے استعمال سے شوہر اور بیوی کا ازدواجی تعلق متاثر ہوتا ہے۔‘‘

شاہدہ کے نزدیک یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں، جن کی بڑی وجہ تعلیم اور شعورکی کمی ہے، ''ہمارے ان علاقوں میں عورتوں کو کسی فیصلے کا اختیار نہیں ہوتا۔ ان سے جو کہا جاتا ہے، کرتی ہیں۔‘‘

تصویر: Imago/Westend61

پاکستان میں زچہ و بچہ کی فلاح و بہبود میں لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کا اہم کردار رہا ہے۔ نوّے کی دہائی میں شروع ہونے والے اس پروگرام کو عالمی سطح پر بھی خاصی پذیرائی ملی۔ ہزاروں پڑھی لکھی لڑکیوں کو روزگار ملا اور وہ اپنے محلوں،  گلیوں اور دیہات میں لاکھوں ایسی خواتین تک پہنچیں، جن تک محکمہ صحت کے اہلکار نہیں پہنچ پاتے۔

لیکن حالیہ برسوں میں یہ پروگرام بھی ملک میں خراب طرز حکمرانی اور بد انتظامی کا شکار ہو گیا ہے۔ شاہدہ سومرو جیسی ہزاروں ہیلتھ ورکرز کو کئی کئی ماہ تنخواہیں نہیں ملتی اور وہ اپنے کام پر توجہ دینے کی بجائے سڑکوں پر آ کر مظاہرے کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

تو مسئلہ فنڈز  کی کمی کا ہے یا بدانتظامی کا؟

تحصیل ہالا  کے گاؤں بھانوٹ میں قائم سرکاری ہسپتال کے سینیئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر ندیم شاہ کہتے ہیں کہ، ''اصل مسئلہ غلط حکومتی ترجیحات کا ہے۔ ہمارے یہاں حکومتوں نے کبھی بھی فیملی پلاننگ کو وہ اہمیت نہیں دی، جو دینی چاہیے۔‘‘

تصویر: DW/S. Jillani

عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے آئے اور 'احساس پروگرام‘  کے تحت اس چیلنج سے نمٹنے کا وعدہ کیا۔ لیکن ڈاکٹر ندیم شاہ کے بقول، ''سال میں ایک دو بار سیمینار کرا دینے یا بیان دینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اس کے لیے قومی سطح پر، جو اتفاق رائے اور لیڈرشپ چاہیے، وہ ہمیں نظر نہیں آتی۔‘‘

ایک وقت تھا جب حکومت ''کم بچے، خوشحال گھرانہ‘‘ جیسے نعروں پر آگہی مہم چلاتی تھی۔ لیکن مذہبی قوتوں کی مخالفت کے ڈر سے سرکار نے اس ذمہ داری سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔    

نتیجہ یہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان کی آبادی دوگنی ہونے جا رہی ہے۔ خطے میں بھارت اور چین دنیا کے دو سب سے بڑے ملک ہیں لیکن لگاتار بچے پیدا کرنے میں پاکستانی انہیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یہی روش رہی تو رواں صدی کے نصف تک یعنی اگلے  تیس برس میں  پاکستان کی آبادی بیس کروڑ سے دوگنی ہو کر چالیس کروڑ ہو جائے گی۔

 اب ذرا تصور کیجیے کہ جو ملک اُدھار پر چل رہا ہو، جہاں بے روزگاری اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہو، جہاں اکثریت کے پاس پینے کا صاف پانی نہ ہو، صحت اور تعلیم کا فقدان ہو، وہاں آبادی کا یہ جِن کیا گُل کِھلائے گا؟

تصویر: DW/S. Jillani

آس پاس نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ایران، ملائیشیا، انڈونیشیا اور حتیٰ کہ بنگلادیش تک انسانی فلاح و بہبود میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ  گئے ہیں۔ ان ملکوں میں بھی مسلمان بستے ہیں لیکن ناقدین کے مطابق وہاں مُلا اور مولوی کو سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا گیا۔ بلکہ ایران میں تو علماء نے آبادی پر قابو پانے کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

بنگلادیش میں خواتین کو تعلیم دینے اور انہیں معاشی طور پر بااختیار بنانے کی پالیسی پر تسلسل سے کام ہوا۔ نتیجہ یہ کہ آبادی پر قابو پانے سمیت بنگلادیش نے انسانی ترقی کے دیگر شعبوں میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں دہائیوں سے جاری سول ملٹری کشمکش، عسکریت پسندی اور کرپشن قوم کی فلاح و بہبود پر بھاری پڑے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی سالمیت کو اصل خطرہ باہر سے ہوا یا اندر سے؟ اور اگر ملک کو بچانا ہے تو آبادی کا یہ ٹائم بم کیسے ڈفیوز ہوگا؟ 

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں