’ملک بدری یقینی موت ہو گی‘: پاکستانی مہاجر کو رکوانے کی کوشش
شمشیر حیدر کے این اے
2 ستمبر 2017
اڑتیس سالہ علی طالبان کے ہاتھوں مرتے مرتے بچا تھا،اس کے جسم پر گولیوں اور زخموں کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ وہ پناہ کی تلاش میں پاکستان سے جرمنی آ گیا تھا۔ لیکن اب اسے جرمنی سے وطن پاکستان بھیج دیا جائے گا۔
اشتہار
علی نے اپنی شرٹ ہٹائی تو اس کے جسم پر موجود زخموں کے نشانات اس پر کیے گئے بدترین تشدد کی نشاندہی کر رہے تھے۔ علی کہنے لگا، ’’یہ طالبان نے کیا تھا۔ انہوں نے ایک جگہ بم چھپا رکھا تھا اور میں نے اس کے بارے میں سب کو بتا دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور مجھ پر تشدد کیا۔‘‘ علی کو پاؤں پر بھی گولیاں ماری گئی تھیں، ان زخموں کے نشان بھی اب تک باقی ہیں۔
اس واقعے میں جان بچ جانے کے بعد علی نے پاکستان چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور ایک طویل اور کٹھن سفر کے بعد بالآخر وہ سن 2014 میں جرمنی پہنچ گیا تھا، اور یہاں اس نے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا دی تھی۔
علی اب جرمن شہر آؤگسبرگ کے ایک نواحی علاقے میں تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے مختص ایک رہائش گاہ میں مقیم ہے۔ جرمنی میں اس کے کئی آپریشن بھی ہوئے اور اب اس کی صحت قدرے بہتر ہے۔ لیکن وہ مزید علاج کے لیے ابھی تک ڈاکٹروں کے پاس جاتا ہے۔
تاہم اب جرمن حکام نے اس کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کر دی ہے، جس کے باعث اسے ممکنہ طور پر جلد ہی وطن لوٹنا پڑے گا۔ واپس اسی ملک میں، جہاں وہ ایک مرتبہ موت کا سامنا کر چکا ہے اور شاید وہاں اب بھی موت ہی اس کی منتظر ہو گی۔
امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے
03:00
بی اے ایم ایف نے اس کی پناہ کی درخواست مسترد کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں علی کے لیے کئی محفوظ جگہیں موجود ہیں، جہاں وہ طالبان کی پہنچ سے دور محفوظ طور پر اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے۔
لیکن پاکستان کے شمالی علاقے کے رہائشی علی کا کہنا ہے کہ اگر وہ وطن واپس گیا، تو طالبان اسے ڈھونڈ ہی لیں گے، ’’گھر واپس گیا تو میں یقینی طور پر مارا جاؤں گا، طالبان مجھے بھولے نہیں ہیں۔‘‘ علی نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کر رکھی ہے اور اسے امید ہے کہ اپیل کے بعد اسے جرمنی میں پناہ دے دی جائے گی۔
آؤگسبرگ میں کیتھولک کلیسا کی ایک فلاحی تنظیم کاریتاس سے وابستہ تھوماس فشٹل علی کی ملک بدری رکوانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ فشٹل نے بی اے ایم ایف کی جانب سے علی کی پناہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وفاقی جرمن دفتر نے علی کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔
لیکن کیا بی اے ایم ایف کی اس وضاحت میں کوئی حقیقت نہیں کہ پاکستان میں علی کے لیے واقعی کئی محفوظ علاقے موجود ہیں؟ اس کیتھولک تنظیم کے ترجمان بیرنہارڈ گاٹنر اس بات سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طالبان کا نیٹ ورک کافی منظم ہے اور علی کی ’پاکستان واپسی کا مطلب یقینی موت ہو گا‘۔
گاٹنر کا کہنا ہے کہ جرمن حکام کی طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ علی جیسے افراد کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کر کے پناہ اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین اور عالمی معیارات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
علی شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے ہیں۔ اس کے بقول پاکستان میں اس کے اہل خانہ بھی اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر ملک کے اندر ہی لیکن ایک اور مقام پر منتقل ہو چکے ہیں، اور وہ ابھی تک طالبان ہی کے خطرے کے باعث خاندان کے دیگر افراد سے کوئی رابطہ بھی نہیں کرتے۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘