ملک میں آزاد میڈیا نہ ہونے کے برابر، ایرانی وزارت کا اعتراف
27 دسمبر 2018
ایرانی وزارت ثقافت نے اعتراف کر لیا ہے کہ ملک میں آزاد میڈیا ادارے تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ بات ملکی وزارت ثقافت کے ذرائع ابلاغ پر تحقیق کے شعبے کے سربراہ حامد رضا سایہ پرور نے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔
اشتہار
ایرانی دارالحکومت تہران سے جمعرات ستائیس دسمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق وزارت ثقافت کے اس اعلیٰ اہلکار کے مطابق ایران میں زیادہ تر میڈیا ادارے یا تو ہیں ہی ریاستی ملکیت اور سرکاری انتظام میں یا پھر ان کے لیے مالی وسال ریاست فراہم کرتی ہے۔
ایرانی نیوز ایجنسی اِسنا کے ساتھ ایک انٹرویو میں حامد رضا سایہ پرور نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اکثر میڈیا ہاؤسز سیاسی جماعتوں کے ترجمان کا کام کرتے ہیں۔
ان کے مطابق عوام کو اطلاعات کی ترسیل کے ذمے دار یہ ادارے نظریاتی طور پر اتنے جانبدار ہیں کہ وہ غیر جانبدارانہ بنیادوں پر تحقیقی صحافت کا راستہ اپنا ہی نہیں سکتے۔
تہران میں ملکی وزارت ثقافت کے میڈیا ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے مزید کہا کہ مقامی ذرائع ابلاغ کا کسی نہ کسی کا ترجمان بنے رہنے کا یہی رویہ اس امر کا سبب بھی ہے کہ زیادہ تر ایرانی باشندے خبروں تک رسائی کے لیے غیر ملکی خبر رساں اداروں یا پھر سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔
سایہ پرور کے بقول اگرچہ ایرانی حکومت ٹوئٹر اور ٹیلیگرام جیسے سوشل میڈیا پر پابندیاں بھی لگا چکی ہے، تاہم اس کے باوجود ایرانی شہریوں کی غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی طرف رغبت کم نہیں ہوئی۔
اس کی ایک مثال دیتے ہوئے سایہ پرور نے بتایا کہ ’ٹیلیگرام‘ پر پابندی کے باوجود قریب 40 سے لے کر 45 ملین تک ایرانی صارفین ابھی تک یہ آن لائن میسج سروس استعمال کرتے ہیں۔
ایرانی خواتین کا حجاب کے خلاف انوکھا احتجاج
ایرانی سوشل میڈیا پر کئی ایرانی خواتین نے اپنی ایسی تصاویر پوسٹ کیں، جن میں وہ حجاب کے بغیر عوامی مقامات پر دکھائی دے رہی ہیں۔
تصویر: privat
یہ ایرانی خواتین کسی بھی عوامی جگہ پر اپنا حجاب سر سے اتار کر ہوا میں لہرا دیتی ہیں۔
تصویر: picture alliance /abaca
حجاب کے خاتمے کی مہم گزشتہ برس دسمبر سے شدت اختیار کر چکی ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca
اس مہم کے ذریعے حکومت سے لازمی حجاب کے قانون کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca
1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین کے لیے سر ڈھانپنا اور لمبا کوٹ یا عبایا پہننا لازمی ہے۔
تصویر: privat
اس قانون کی خلاف ورزی پر کسی بھی خاتون یا لڑکی کو ہفتوں جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: privat
ایرانی حکام کے مطابق یہ ’پراپیگنڈا‘ غیر ممالک میں مقیم ایرانیوں نے شروع کیا۔
تصویر: privat
ایران میں ایسی ’بے حجاب‘ خواتین کو گرفتار کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تصویر: privat
صدر روحانی کا کہنا ہے کہ عوام کی طرف سے تنقید نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔
تصویر: privat
صدر روحانی نے ایک سرکاری رپورٹ بھی عام کر دی، جس کے حجاب کے قانون کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: privat
اس رپورٹ کے مطابق قریب پچاس فیصد ایرانی عوام لازمی حجاب کے قانون کی حمایت نہیں کرتے۔
تصویر: privat
10 تصاویر1 | 10
حامد رضا سایہ پرور نے اِسنا کو بتایا، ’’سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے یا انہیں نظر انداز کرنے کا دور یقینی طور پر گزر چکا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بات اس پس منظر میں کہی کہ ایران میں ٹیلیگرام، انسٹاگرام، ٹوئٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا کئی برسوں سے ملک کی مذہبی اور حکومتی قیادت کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اسی تناظر میں ایران میں سخت گیر نظریات کے حامل کئی سیاسی اور مذہبی رہنما یہ مطالبات بھی کر رہے ہیں کہ ملک میں تمام سوشل میڈیا کو بند کر دیا جانا چاہیے۔ دوسری طرف عوام کو غیر جانبدار یا تنقیدی مواد تک آن لائن رسائی سے روکنے کے لیے حکومت نے آج تک جتنے بھی اقدامات کیے ہیں، وہ زیادہ کارگر اس لیے نہیں ہوئے کہ کروڑوں کی تعداد میں ایرانی باشندے انٹرنیٹ رابطوں کے لیے ایسی وی پی این ایپلیکیشنز استعمال کرتے ہیں، جو ان کے کمپیوٹرز اور موبائل فونز کے آئی پی ایڈریسز کو چھپا دیتی ہیں اور یوں یہ صارفین حکام کی نظروں میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔
م م / ع ت / ڈی پی اے
ایران میں سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارتی باہمت خواتین
آج کل بہت سی حوصلہ مند خواتین ایرانی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں حقوقِ انسانی کی علمبردار خواتین کے ساتھ ساتھ صحافی، فنکارائیں یا کسی بھی شعبے میں جدوجہد کرنے والی عام خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: Iran-Emrooz/HRANA
نازنین زاغری - ریٹکلف
ایران اور برطانیہ کی دوہری شہریت کی حامل یہ خاتون تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی کارکن ہیں اور اپریل 2016ء سے جیل میں ہیں۔ وہ اپنی دو سالہ بیٹی کے ہمراہ ایران میں اپنے اہل خانہ کو ملنے کے لیے گئی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ وہ دھیمے انداز میں ’اسلامی جمہوریہٴ ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے‘ کی تیاریاں کر ر ہی تھیں۔ دنیا بھر کے صحافیوں کو تربیت فراہم کرنے والی فاؤنڈیشن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
تصویر: Iran-Emrooz/HRANA
زہرہ رہ نورد
زہرہ رہ نورد اپوزیشن سیاستدان میر حسین موسوی کی اہلیہ ہیں۔ اُنہیں ایران کی معروف ترین خاتون سیاسی قیدی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سن 2009ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد زہرہ رہ نورد نے، جو ایک پروفیسر ہیں، اپنے شوہر کی حمایت کی تھی۔ وہ مجسمہ ساز بھی ہیں اور امورِ سیاست کی ایک ممتاز محققہ بھی لیکن وہ فروری 2011ء سے اپنے شوہر کے ہمراہ کسی بھی فردِ جرم کے بغیر اپنے گھر میں نظر بند چلی آ رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images
نرگس محمدی
یہ خاتون انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ اگرچہ اُن کی سرگرمیاں پُر امن تصور کی جاتی ہیں لیکن مئی 2016ء میں اُنہیں سولہ سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا۔ جون کے اواخر سے وہ بھوک ہڑتال پر چلی گئیں کیونکہ حکام اُنہیں اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ فون پر بھی رابطہ نہیں کرنے دے رہے تھے۔ بیس روز کی بھوک ہڑتال کے بعد بالآخر اُنہیں ہفتے میں ایک بار اپنے بچوں کے ساتھ فون پر بات چیت کی اجازت دے دی گئی۔
تصویر: cshr.org
ہما ہودفر
کینیڈا اور ایران کی دوہری شہریت کی حامل ہما ہودفر ایک ماہرِ بشریات ہیں اور چھ جون 2015ء سے تہران کی بدنامِ زمانہ اوین جیل میں قید ہیں۔ یہ ممتاز محققہ گزشتہ سال فروری میں ایک نجی دورے پر ایران گئی تھیں۔ وہ ایرانی سیاست میں خواتین کے تاریخی کردار پر تحقیق کرنا چاہتی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک ’نسوانی سازش‘ کو ہوا دی ہے۔
تصویر: irane emrooz
بہارہ ہدایت
اِس خاتون کو ایران میں طالب علموں اور خواتین کی تحریک کے درمیان رابطے کے حوالے سے مرکزی شخصیت گردانا جاتا ہے۔ اُنہیں 2010ء میں اپنی شادی کے کچھ ہی عرصے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور 9 سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ تب وہ طلبہ کی ایک تنظیم OCU (آفس فار کونسیلیڈیٹنگ یونٹی) کی سربراہ تھیں، جو ملک میں سیاسی اصلاحات کے لیے کوشاں تھی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف سرگرم تھی۔
تصویر: humanrights-ir.org
ریحانہ طباطبائی
سیاسی امور پر لکھنے والی اس صحافی خاتون کو کئی مرتبہ جیل جانا پڑا ہے۔ اس بار وہ جنوری 2016ء سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اُن پر ریاست کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کا الزام ہے۔ ریحانہ طباطبائی کو ایک سال قید کا حکم سنایا گیا ہے اور اُن پر دو سال تک کے لیے اپنے شعبے میں کام کرنے کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ انقلابی عدالت نے دو سال تک کے لیے اُنہیں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے سے منع کر دیا ہے۔
تصویر: melliun.org
فریبہ کمال آبادی
آٹھ سال تک جیل میں رہنے کے بعد فریبہ کمال آبادی (دائیں سے تیسرے نمبر پر) اس سال مئی کے اوائل میں جیل سے چھٹیوں پر باہر آئیں۔ 2008ء تک وہ بہائی فرقے کی نمائندگی کرنے والی سرکردہ ترین خاتون تھیں۔ اُنہیں اپنے عقیدے کی وجہ سے بیس سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ جیل سے چھٹیوں کے دوران سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی کے ساتھ اُن کی ملاقات کو ’اسلام سے غداری‘ کے مترادف قرار دیا گیا۔