ملیریا کے خلاف عالمی دن
25 اپریل 2010اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے مليريا زدہ علاقوں ميں مچھر دانياں اور ضرورت پڑنے پر ادويات بھی تقسيم کی جانا تھيں۔ مليريا کے خاتمے کا عشرہ قرار دی جانے والی يہ دہائی اس سال ختم ہورہی ہے ، ليکن افسوسناک بات يہ ہے کہ اکثر ممالک ميں مقرر کردہ ہدف پورا نہيں کيا جاسکا ہے۔
مليريا کے خاتمے کے عشرے کی جزوی کاميابياں:
مليريا کا خطرہ دنيا کے 108 ممالک ميں پايا جاتا ہے۔ سب سے زيادہ افريقہ اس سے متاثر ہےاور افريقہ کے صرف 9 ملک ايسے ہیں جو مليريا کے مريضوں اور اس مرض کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد ميں کمی کرسکے ہيں۔ افريقہ ميں مليريا کے خلاف جنگ کے مشکل ہونے کی کئی وجوہات ہيں۔ آوا مری کول سيک کے مطابق ان ميں سے ايک وجہ اس مرض کے بارے ميں ناکافی معلومات اور مچھر دانيوں کا غلط استعمال ہے۔ بعض لوگوں نے مچھر دانيوں کو مچھلی پکڑنے کے جال کے طور پر استعمال کيا۔ WHO کی ماہر نے کہاکہ اس لئے ہميں صرف مچھر دانياں تقسيم ہی نہيں کرنا ہوں گی بلکہ مقامی سطح پر طرزعمل ميں تبديلی لانے کے طريقے بھی اختيار کرنا ہوں گے اور جائے وقوع پر لوگوں سے مکالمت بھی کرنا ہوگی۔
مريضوں کو مليريا کی ادويات فراہم کرنے کے سلسلے ميں بھی جزوی کاميابی ہی ہوئی ہے۔ سن 2006 کے مقابلے ميں ايسے مريضوں کی تعداد آج زيادہ ہے جنہيں دوائيں دی جارہی ہيں۔ تاہم آبادی کے بڑے حصے کو اب بھی بہت مشکل ہی سے ادويات تک رسائی حاصل ہے۔ افريقہ کے جن 13ممالک کا جائزہ ليا گيا اُن ميں سے 11 ميں 5 سال سے کم عمر کے صرف 15 فيصد بچوں کو مليريا کی دوائيں مل رہی ہيں۔
مليريا کا کم خرچ مقابلہ:
مليريا کے مچھر کے کاٹنے سے بچنے کے لئے مؤثر ترين ہتھيار اب بھی مچھر دانی ہی ہے۔ مليریا زدہ علاقوں ميں مچھر دانيوں کی تقسيم اور ان کا استعمال ہونا چاہئے۔عالمی تنظيم صحت WHO اس طريقے سے دنيا بھر ميں مليريا کی روک تھام چاہتی ہے۔ مچھر دانياں مہنگی نہيں اور بہت کارگر ہيں۔
عالمی تنظيم صحت کے مليريا پروگرام کی آوا مری کول سيک کا کہنا ہے، " مچھر دانيوں کی مدد سے 5 سال سے کم عمر کے 25 فيصد بچوں اور مليريا سے شديد طور پر متاثر ہونے والوں ميں سے 50 فيصد کو موت سے بچايا جا سکتا ہے۔" WHO کی ماہر کا مزید کہنا ہے کہ کيڑے مار دواؤں سے چھڑکی گئیں ايسی مچھر دانياں بھی دستياب ہيں جن کا مچھر مار اثر اوسطاً 5 سال تک باقی رہتا ہے۔ ايتھوپيا ميں ان مچھر دانيوں کا تجربہ کامياب رہا ہے۔ 2 سال کے عرصے ميں وہاں 20 ملين مچھر دانياں تقسيم کی گئيں جن سے مليريا کے مريضوں کی تعداد ميں 50 فيصد کمی ہوگئی۔ عالمی تنظيم صحت اور اُس کے رکن ممالک نے سن 2008 تک صرف افريقہ کہ 140 ملين مچھر دانياں فراہم کيں۔ يہ "مليريا کے خاتمے کے عشرے " کے ايکشن پروگرام کے دائرے ميں کيا گيا۔ خط استوا پر واقع انتہائی گرم مرطوب آب و ہوا والے ملک گنی يا جزيرے زنجبار ميں آدھے سے زيادہ گھرانوں کے پاس مچھر دانياں ہيں۔ اسی مناسبت سے وہاں مليریا ميں مبتلا ہونے والوں کی تعداد ميں بھی کمی ہوئی ہے۔
کارگر نظام صحت کے بغير کاميابی نا ممکن:
آوا مری کول سيک کا کہنا ہے کہ علاج کے لئے ايک اچھا نظام صحت ضروری ہے۔ تاہم خاص طور پر افريقہ ميں ايک کارگر نظام صحت موجود نہيں ہے۔ بہت سے ملکوں کے پاس ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور ادويات کے لئے پيسہ ہی نہيں ہے۔ جنوبی سوڈان ميں ايک لاکھ افراد کے لئے صرف ايک ڈاکٹر ہے۔ کانگو ميں اس قدر کم سڑکيں ہيں کہ مليريا کی ادويات بہت مشکل ہی سے ہسپتالوں تک پہنچ پاتی ہيں۔
مليريا کے خاتمے کے لئے مقامی لوگوں کو احتياطی تدابير سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً يہ کہ وہ گڑھوں اور جوہڑوں ميں رکے گندے پانی کو خشک کريں يا پلاسٹک کے ڈبوں کو کھلا نہ رہنے ديں کيونکہ يہ مچھروں کی محبوب ترين جگہيں ہوتی ہيں جہاں اُن کی پيدائش ہوتی ہے۔
رپورٹ : شہاب احمد صدیقی
ادارت : کشور مُصطفیٰ