ڈائنا سورز ممالیہ جانور کا شکار رہے: نایاب فوسل کی دریافت
22 جولائی 2023
چین میں ممالیہ جانوروں سے متعلق ایک غیر معمولی دریافت سے پتا چلا ہے کہ یہ جانور کھانے کے لیے ڈائیناسورز کا شکار کیا کرتے تھے۔
اشتہار
چین میں ایک فوسل یا زمین سے کھود کر نکالے ہوئے ایک قدیم ڈھانچے سے ایسے نقوش ملے ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ بیجر یا بجو نما جانور چھوٹی چونچ والے ڈائناسورز کو چیر پھاڑ کر کھایا کرتے تھے۔ ان ڈائنا سورز کے پنجر یا ڈھانچے بُری طرح ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے دکھائی دیے۔
یہ فوسل چین کے ایک ایسے قدیمی آثار سے ملے ہیں جس علاقے کو ''چین کے پومپئی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں ہزاروں سال پرانے آتش فشاں کے کیچڑ اور ملبے میں بہت سی نایاب مخلوقات دفن ہیں۔
''پومپئی‘‘ کی تعریف
پومپئی دراصل ایک قدیم رومی شہر تھا جو موجودہ یورپی ملک اٹلی کے علاقے کمپانیا میں نیپلز کے نزدیک واقع تھا۔ یہ شہر ساتویں قبل مسیح کے دوران آباد ہوا۔ رومن سلطنت کے دور میں اس شہر نے بے حد ترقی کی اور تب وہاں واٹر چینلز، تالاب، سڑکیں لائبریریاں اور کمیونٹی سینٹرز کے علاوہ گھوڑوں کے اصطبل اور دو منزلہ مکانات جن کے ارد گرد باغات اور ہسپتال وغیرہ کی تعمیر ہوئی۔ یہی وہ پہلا شہر تھا جہاں جگہ جگہ فوارے نصب تھے۔
یہی وہ شہر ہے جہاں سب سے پہلے زیبرا کراسنگ کا رواج شروع ہوا تھا اور اجتماعی حمام کے تصور نے بھی یہیں سے جنم لیا تھا۔ قریب 80 ویں عیسوی میں اس شہر کے نزدیک کا ایک آتش فشاں پہاڑ پھوٹ پڑا۔ اس کی شدت اس قدر تھی کہ ہزاروں افراد دیکھتے ہی دیکھتے آتش فشاں کے لاوے میں گھُل گئے۔ پورا شہر راکھ کے نیچے دفن ہو گیا۔
چینی پومپئی کے فوسلز
سائنسی رپورٹس کے جریدے میں ''چینی پومپئی‘‘ کے فوسلز کے بارے میں بیان کردہ تفصیلات کے مطابق ان سے قریب 125 ملین سال پہلے، کریٹاسیئیس دور کی دو مخلوقات کا پتا چلتا ہے۔ گو کہ ایڈنبرا یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات اسٹیو بروسیٹ اس مطالعے میں شریک نہیں تھے تاہم انہوں نےایک ای میل میں تحریر کیا، ''ایسا لگتا ہے کہ یہ پری ہسٹورک یا قبل از تاریخ دور میں کیے گئے شکار سے حاصل کردہ باقیات ہیں، جو پتھر میں منجمد فریم کی طرح قید ہیں۔‘‘
اس مطالعے کے مصنف، کینیڈین میوزیم آف نیچر سے منسلک ڈائنا سورز کے ارتقا پر تحقیق کرنے والے محقق جورڈن میلن کہتے ہیں کہ اگرچہ ممالیہ ڈائنا سور کے مقابلے میں کہیں چھوٹا جانور ہوتا ہے، لیکن جب یہ دونوں آتش فشاں کے بہاؤ کی لپیٹ میں آئے توممالیہ نے ڈائنا سور پر حملہ کیا۔ وہ ڈائنا سور پر بیٹھا، اس کے پنجوں نے ڈائنا سور کے جبڑے اور عقبی اعضا کو اپنے داتوں سے جکڑ لیا جبکہ اس کے دانت ڈائنا سورز کی پسلیوں میں گھس گئے۔ مولن کا کہنا تھا،''میں نے اس طرح کا فوسل پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
پہلے کا ایک مفروضہ
اس تازہ ترین مطالعے کی بنیاد پر پیش کردہ مفروضے سے پہلے ایک یہ نظریہ بھی پایا جاتا تھا کہ ممالیہ ڈائنا سورز کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ اس کا ایک ثبوت ''چینی پمپئی‘‘ سے ملنے والے ایک اور فوسل سے بھی ملتا ہے جس میں ایک مردہ ممالیہ کی آنت میں ڈائنا سور کی باقیات پائی گئیں۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ممالیہ جانور اپنے سائز سے کئی گنا زیادہ بڑے سائز کے ڈائناسورز کا شکار کیا کرتے تھے۔
انسانی ارتقا: آغاز کے نئے مضبوط ثبوت
اسرائیل میں قدیمی انسان کے فوسلز کی دریافت نے انسانی ارتقا کے بارے میں نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ اس پکچر گیلری میں موجودہ انسان کے آبا و اجداد کے حوالے سے معلوماتی تصاویر موجود ہیں۔
تصویر: Avi Levin/AP/picture alliance
خاندان کی نئی شاخ
اسرائیل میں ایک گڑھے میں سے ایک نامعلوم قدیمی دور کے ایک انسان کا فوسل ملا ہے۔ یہ ایک لاکھ سال قبل کا ہے۔ ان حجریوں میں ایک کھوپڑی اور جبڑا ہے۔ یہ کسی ایسے شخص کا ہے جو قریب ایک لاکھ بیس ہزار سے ایک لاکھ چالیس سال قبل موجود تھا۔
تصویر: Ammar Awad/REUTERS
آدمی جیسا
انسان کی اس باقیات کا نام ’نیشر رملا ہومو ٹائپ‘ تجویز کیا گیا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ نیشر رملا مقام سے ملنے والی باقیات قدیمی انسان کے آخری بچ جانے والے افراد کی ہیں۔ یہ یورپی نیئنڈرتھال کے قریب ترین ہیں۔ ریسرچرز کا خیال کے یہ قدیمی انسان بھارت اور چین تک کے سفر پر بھی گئے کیونکہ وہاں بھی ایسے فوسلز ملے تھے۔
تصویر: Yossi Zaidner/AP Pictures/picture alliance
نیئنڈر تھال کا پرانا امیج
پوپ کلچر میں غیر ضروری انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ پرانے دور کے حجری انسان ڈنڈے کے لیے کمر پر ڈنڈے لادے پھرتے تھے۔ یہ ایک پرانی تحقیق سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ جو سن 1908 میں دریافت ہونے والے انسانی ڈھانچے کے حوالے سے ہے۔ اس استخوان کی کمر اور گھٹنے وزن اٹھانے سے خم زدہ تھے۔ اس دریافت کی وجہ سے اکسفرڈ ڈکشنری میں ایسے انسانوں کے لیے ’پریمیٹیو‘ وغیرہ جیسے الفاظ شامل کیے گئے۔
تصویر: Federico Gambarini/dpa/picture alliance
سوچ سے زیادہ قریب
یہ ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ نیئنڈر تھال عہد کے انسان آلات بنانے کے تیز ترین طریقوں سے آشنا تھے۔ وہ جلد آگ جلانے کے ساتھ بڑے جانوروں کے شکار میں مہارت رکھتے تھے۔ نیئنڈر تھال دور کے انسان آج کے دور کی طرح بڑے جانوروں کی نسلوں کے ملاپ کا فن بھی جانتے تھے۔
تصویر: Imago/F. Jason
بیٹلز کا گیت
مشہور پوپ میوزیکل بینڈ بیٹلز کے گیت ’لوسی اِن دا سکائی وِد ڈائمنڈز‘ میں ایک نسائی ڈھانچے کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس گیت کے بعد اس استخوان یا ڈھانچے کو ’آسٹرالو پیتھیکس افارینسیس‘ کا نام دیا گیا۔ اس استخوان کو بیسویں صدی میں بہت شہرت ملی تھی کیونکہ ریسرچرز نے اسے اولین انسانی نسل سے جوڑا تھا۔ یہ ڈھانچہ سن 1978 میں ایتھوپیا میں حجری دور کے ماہر ڈونلد سی جانسن نے اپنی تحقیق کے دوران دریافت کیا تھا۔
تصویر: Jenny Vaughan/AFP/Getty Images
فلو عرف ہابٹ
ہابٹ کے استخوان کو عام طور پر ’فلو‘ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی جسامت چھوٹی تھی۔ ایسے انسان کا ایک استخوان انڈونیشی جزیرے فلوریس میں سن 2004 میں جنوبی افریقہ میں دریافت کیا گیا۔ یہ استخوان بھی ایک عورت کا تھا۔ اس کا تعلق ماہرین نے ’ہومو فلوریسیئنسیس‘ سے کیا تھا۔ یہ قریب بارہ ہزار سال پرانا انسانی ڈھانچہ ہے۔ اس استخوان کی لمبائی صرف تین فٹ سات انچ تھی۔ اس چھوٹی جسامت کی بنیاد پراسے ہابٹ قرار دیا گیا۔
تصویر: AP/STR/picture alliance
دو پایوں کا اولین ثبوت
سن 1924 میں ایک جنوبی افریقی علاقے تاؤنگ میں کام کرنے والے کان کنوں کو ایک عجیب سے کھوپڑی ملی۔ یہ انسانی جسم کے ماہر ریمنڈ ڈارٹ کو پیش کی گئی۔ انہوں نے اس پر ریسرچ کر کے بتایا کہ یہ ایک تین سالہ انسانی بچے کی ہے۔ اس کھوپڑی کا نام ’آسٹرالوپیتھیکس افریکانوس‘ رکھا گیا یہ کھوپڑی تین ملین پرانی تھی۔ اس کھوپڑی نے اس نظریے کو تقویت دی کہ انسان کا اِرتقا افریقہ میں ہوا نا کہ ایشیا اور یورپ میں۔
تصویر: imago stock&people
ڈی این اے کی از سر نو تشکیل
سن 2008 میں روسی ماہر آثار قدیمہ میشیل شنکوف نے روسی قزاقستانی سرحد کے نزدیک التائی پہاڑی سلسلے میں سے ابتدائی انسانی استخوان کا ایک نمونہ ڈھونڈ نکالا۔ اس کے ذریعے انسانی ڈی این اے کا کھوج لگایا گیا۔ اس استخوان کا نام پہاڑی سلسلے کی مناسبت سے ’ڈینسووانِس‘ رکھا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی افریقہ سے مہاجرت کر کے اس علاقے میں پہنچے تھے۔ یہ نیئنڈر تھال اور ہومو سیپیئنز سے پہلے کی مہاجرت تھی۔
تصویر: Maayan Harel/AP/picture alliance
ہومو سیپیئنز کے نئے رشتہ دار!
سن 2015 میں جنوبی افریقہ کی رائزنگ اسٹار غاروں کے طویل سلسلے میں سے پندرہ قدیمی انسانوں کی پندرہ سو ہڈیاں دریافت ہوئی تھیں۔ خیال کیا گیا کہ یہ ہڈیاں ’ہومو نالیدی‘ انسانی گروپ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس دریافت پر ابھی تک ماہرین ایک حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ ابھی تک تعین نہیں کیا جا سکا کہ یہ ابتائی انسانوں کی ہڈیاں ہیں یا انتہائی قدیمی ’ہومو ایریکٹس‘ سے تعلق رکھتی ہیں۔
پرانے انسانوں کا سراغ ان کے غاروں میں کندہ فن سے ملا ہے، کولمبیا کی چربیکیٹ نیشنل پارک میں بائیس ہزار سال پرانی غاریں دریافت کی گئیں۔ ان میں سے کچھ ایسے نکات ماہرین آثار قدیمہ کو ملے جن سے یہ ظاہر ہوا کہ انسان سب سے پہلے امریکی خطے میں بیس سے تیس ہزار سال قبل پہنچے تھے۔
تصویر: Jorge Mario Álvarez Arango
قدیم ترین غار آرٹ
سن 2021 میں آسٹریلوی اور انڈونیشی ماہرینِ آثار قدیمہ نے انڈونیشیا کے علاقے سُولاویسی میں ایسی غاریں ڈھونڈ نکالی، جن میں پرانے دور کے آرٹ کے نشانات ملے۔ ماہرین کے مطابق یہ غار آرٹ پینتالیس ہزار سال قبل تخلیق کیا گیا تھا۔ ان آرٹ میں استعمال رنگوں پر کاربن ٹیسٹ سے قدیم دور کی تاریخ معلوم ہوئی ہے۔