ممبئی حملے اورمیڈیا کوریج
17 دسمبر 2008بھارتی ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں حالیہ حملوں کے بعد بھارتی کمانڈوز اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو شدت پسندوں پر قابو پانے میں تقریباً تین دن کا وقت لگا۔ ان حملوں کے اثرات بھارت کی داخلی اور خارجہ سیاست پر بھی کافی گہرے پڑے، اور ساتھ ہی بھارت۔ پاک تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ایسے میں ممبئی حملوں کے تعلق سے دونوں ممالک میں ذرائع ابلاغ، یعنی، اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن کے کردار اور کوریج پر تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
بھا رتی میڈیا کی ممبئی حملوں کی کوریج کے حوالے سے’’نو بھارت ٹائمز‘‘ کے چیف ایڈیٹرمدھو سدن آنند کہتے ہیں: ’’بھارتی میڈیا کاکردار بہت غیر جانبدار رہاہے، جیسے کہتے ہیں کہ سو پھولوں کو کھلنے دو، اسی طرح ایک سچ کے، ایک واقعے کے ہمیں کئی روپ دیکھنے کو ملے۔ بھارتی اخباروں، ٹی وی چینلز نے اس واقعے کے ہر زاویے پر روشنی ڈالی۔‘‘ تاہم مدھو سدن کہتے ہیں کہ بھارتی میڈیا کا کردارکسی حد تک سنسنی خیز بھی رہا اور کچھ غیر ضروری چیزوں کو دہرایا جاتا رہا۔‘‘
معیاری صحافت:
مظہر عباس پاکستانی صحافی ہیں اور پاکستان فیڈریل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل بھی۔ عباس کے خیال میں ممبئی حملوں کی کوریج معیاری نہیں تھی۔ ’’میرا خیال ہے کہ صحیح طریقے سے کام نہیں کیا گیا۔ کسی بھی صحافی نے انویسٹی گیشن نہیں کیا، نہ انڈیا میں اور نہ ہی پاکستان میں۔ پاکستان میں تو صحافیوں کے پاس ذرائع نہیں تھے لیکن بھارت میں بھی صرف وہی پیش کیا گیا جو پولیس کا موٴقف تھا۔‘‘
مظہرعباس مزید کہتے ہیں: ’’بھارتی میڈیا کو اگر آپ دیکھیں تو ایسا نظر آرہا تھا کہ ایسا دکھانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ جو کچھ پولیس کہہ رہی ہے وہ بالکل درست ہے۔ میرے لیے بھارتی میڈیا کا پولس ذرائع پر بھروسہ کرنا باعث تعجب ہے کیونکہ پاکستان میں پولیس کے بیان کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ۔ صحافت میں تو اسے صرف پولیس کا موقف سمجھا جاتا ہے نہ کہ حقیقت۔ میں نے اب تک کوئی ایسی رپورٹ یا خبر نہیں دیکھی جس میں کسی بھارتی صحافی نے آزادانہ طور پر اس سارے معاملے کی تحقیق کی ہو۔‘‘
دوسری جانب مدھو سدن کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا حکومت یا پولیس کا موقف بیان نہیں کر رہے تاہم وہ مانتے ہیں کہ بھارتی میڈیا نے اس سارے حملے کو سنسنی خیز طریقے سے پیش کیا اور کچھ چیزوں کو غیر ضروری طور پر دہرایا گیا۔ ’’میڈیا نے ایک بہت بڑا ہوا کھڑا کر دیا۔ اس سارے واقعے کورئیلیٹی شو بنا کر پیش کیا گیا۔ چوبیس گھنٹے صرف اور صرف یہی ، میں یہ مانتا ہوں کہ یہ ایک بہت اہم واقعہ تھا لیکن میں سنسنی خیز صحافت کےحق میں نہیں ہوں۔‘‘
جنگ کرانے کی کوشش:
بین الاقوامی نشریاتی ادارے بی بی سی سے وابستہ محمد حنیف پاکستان اور بھارت، دونوں ہی ملکوں، کے ذرائع ابلاغ کا قریبی جائزہ لینے کے بعد اپنا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں کا اپنا اپنا ایجنڈہ تھا،جس کے تحت انہوں نے حکومتوں کو جنگ کے دہانے پر کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ ممبئی حملوں کی تین دن کی کوریج کے دوران اور بعد میں بھی دونوں طرف سےمیڈیا کشیدگی کو بڑھانےکا سبب بنا۔ ’’ان حملوں کے بعد دونوں ملکوں کی حکومتوں نے ذمہ دارانہ رویہ اپنایا لیکن میڈیا کا رویہ کچھ اس طرح کا تھا کہ جنگ تو اب ہو نی ہی چاہیے۔ خصوصاً ٹی وی چینلوں نے ایک دوسرے سے بازی لے جانے اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے یہ رویہ اپنایا۔ یہ ملک سے محبت کا نتیجہ بالکل نہیں تھا بلکہ ریٹنگ کی دوڑمیں جیت کے لیے سخت ترین باتیں کی گئیں۔‘‘
دوستی کرانا میرا کام نہیں:
پاکستانی صحافی اور ایک نجی ٹی وی چینل ’’آج‘‘ کے نیوز ڈائریکٹر طلعت حسین اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ دو ممالک کے مابین جنگ کی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بحیثیت صحافی ان کا کام صرف حقائق کو بیان کرنا ہے نہ کہ پاک۔ بھارت تعلقات میں بہتری پیدا کرنا۔ ’’ میں میڈیا کے اس کردارکے حق میں نہیں ہوں جس کے تحت میڈیا کو ایک ذریعہ بنا کر دوستیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ میرے خیال میں صحافی کا کام دوستیاں کرانا نہیں ہے یہ تو سفارت کاروں کا کام ہے۔ جب سے پاک۔ بھارت اعتماد سازی کے اقدامات کا زمانہ چلا ہے اور این جی او کو بڑی ہوا ملی ہے اس وقت سے یہ شروع ہو گیا ہے کہ دوستی پیدا کریں۔ بحیثیت صحافی میری ذمہ داری دوستی نہیں ہے، میری ذمہ داری حقائق بیان کرنا ہے۔‘‘
لیکن وہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ بحران کی صورتحال میں ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ و ہ حقائق کو مسخ نہ کریں۔ طلعت حسین مزید کہتے ہیں: ’’کس ملک کے میڈیا میں قوم پرستی کا عنصر موجود نہیں لیکن اس کے باوجود حقائق کو بیان کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اس کی ایک مثال یہ کہ ایک پاکستانی صحافی نے عامر قصاب کی کہانی پر تحقیق کی اور فرید کوٹ جا کر انتخابی لسٹوں میں سے اس کا نام تلاش کیا اور منظر عام پر لے کر آئے۔‘‘
اس کی کیا وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارتی ذرائع ابلاغ دھشت گردی کے خلاف مل کر جنگ لڑنےکے بجائے ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ مظہر عباس اس کی وجہ کچھ یوں بتاتے ہیں: ’’دنیا میں یہ کہا جاتا ہے کہ ’’جنگی حالات میں سب سے پہلا وار سچ پر ہوتا ہے۔‘‘ خاص طور پر جب بات پاک۔ بھارت تنازعے کی ہو توسب سے پہلا وار سچائی پر ہوتا ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ پرجزبات حاوی ہوجاتے ہیں۔میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ حب الوطنی ہے۔ اس طرح ہم صورتحال کو صحیح طریقے سے جانچ نہیں سکتے۔‘‘
اگر ایسا ہی ہے کہ دونوں ممالک کے صحافی آزاد اور جانبدار سوچ اپنائے بغیر جزبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں تو ایک عام آدمی کس پر بھروسہ کرے؟ اس سوال کے جواب میں محمد حنیف کہتے ہیں: ’’ آپ دس چینل کو دیکھیں گیں اور آپ کو بنیادی معلومات کے علاوہ سب کچھ مل جائے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ دیکھنے سننے والے اپنے دماغ کا استعمال کریں اور کسی ایک چینل پر بھروسہ نہ کریں۔‘‘
پاکستان اور بھارت میں ممبئی حملوں کے بعد ذرائع ابلاغ کے حقیقی کردار پر بحث کا آغاز ہو گیا ہےجسے ایک اچھی پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔ اور امید کی جاسکتی ہے کہ اس بحث کا نتیجہ مثبت ہوگا اور معنی خیز بھی۔