1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ممبئی حملے: پاکستانی وفد بھارت میں

15 مارچ 2012

سن دو ہزار آٹھ کے ممبئی حملوں کی تحقیقات کے حوالے سے پاکستانی تفتیش کاروں اور وکلاء کا ایک وفد بدھ کے روز بھارت پہنچا ہے۔ ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں میں ایک سو چھیاسٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

تصویر: AP

پاکستانی تفتیش کاروں اور وکلاء کی ٹیم کا یہ اپنی نوعیت کا واحد دورہ ہے۔ پاکستان نے دو ہزار نو میں سات افراد پر ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں فرد جرم عائد کی تھی۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ ان سات افراد کے خلاف مزید کارروائی سے قبل اسے مزید شواہد کی ضرورت ہے۔ اسی لیے یہ پاکستانی ٹیم بھارت کے دورے پر ہے تاکہ ان افراد کے بارے میں معلومات اکھٹا کی جا سکیں۔

اس دورے کے بارے میں بھارتی وزارت داخلہ کی سرجمان ارا جوشی کا کہنا تھا، ’’پاکستانی جوڈیشل کمیشن کے اراکین نئی دہلی میں ہیں۔ وہ جمعرات کو ممبئی جائیں گے۔‘‘

بھارت ممبئی حملوں میں پاکستان کا ہاتھ بتاتا ہےتصویر: AP

نو اراکین پر مشتمل پاکستانی جوڈیشل کمیشن کا یہ وفد گواہوں اور بھارتی تفتیش کاروں کے بیانات لے گا اور ان سے سوال جواب بھی کرے گا۔ جوشی نے اس بارے میں مزید بتایا، ’’ان کا مینڈیٹ دو ہزار آٹھ کے کیس کی تفتیش کرنے والوں کے بیانات لینا ہے۔‘‘

نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے چار ممبران ممبئی میں اس وفد کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ یہ ٹیم ممبئی حملوں کے وکیل استعاثہ اجول نکم سے بھی ملاقات کرے گی۔

پاکستانی استغاثہ اظہر چوہدری کے مطابق کمیشن کے پاس باقاعدہ تفتیش کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔ ’’ہم شاہدین سے معلومات اکھٹا کریں گے۔ یہ تفتیش نہیں ہے۔ یہ پاکستانی عدالت کی ایما پر شواہد اکھٹے کرنے کا کام ہے۔‘‘

بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ پاکستان کی جانب سے یہ کارروائی ایک دکھاوا ہے اور یہ کہ اس نے اسلام آباد کو پہلے ہی اتنے ثبوت دے دیے ہیں کہ جن افراد پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے ان کو سزا سنائی جا سکے۔

خیال رہے کہ پاکستان نے ممبئی حملوں کے بعد بچ جانے والے واحد ملزم اجمل قصاب سے بھی سوال و جواب کی اجازت طلب کی تھی تاہم قصاب اس ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوگا۔

بھارت ممبئی حملوں میں پاکستان کا ہاتھ بتاتا ہے۔ پاکستانی حکومت اس میں ریاستی عناصر کے ملوث ہونے کی تردید کرتی ہے۔

رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں