ممتاز قادری کی برسی کے موقع پر ريلیوں، احتجاج پر پابندی
28 فروری 2017پاکستانی صوبہ پنجاب کی حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے اس بارے میں کہا، ’’ہر قسم کے احتجاج اور ريلياں نکالنے پر پابندی عائد ہے، بالخصوص سلامتی کی موجودہ صورت حال ميں۔‘‘ احمد خان نے پاکستان ميں ہونے والے حاليہ دہشت گردانہ حملوں اور ان کے نتيجے ميں سلامتی کی صورت حال کے تناظر ميں يہ بات منگل اٹھائيس فروری کے روز بتائی۔
ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت پر سن 2016 ميں انتيس فروری کے روز عمل درآمد کر ديا گيا تھا۔ قادری نے صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثير کو سن 2011 ميں گولياں مار کر ہلاک کر ديا تھا۔ اس کارروائی کے وقت قادری گورنر تاثیر ہی کے محافظ کی حيثيت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ سلمان تاثير نے ملک ميں توہين رسالت اور توہین مذہب سے متعلق قوانين پر نظر ثانی کا مطالبہ کيا تھا، جس پر سخت گير نظريات کے حامل مسلمان ان سے کافی نالاں تھے۔
پاکستان کے متعدد اسلام پسند گروپوں کی متحدہ تحريک ’لبيک يا رسول اللہ‘ کی جانب سے کہا گيا ہے کہ ممتاز قادری کی برسی سے ايک روز قبل اس تحریک کے دو رہنماؤں کو نظر بند کر ديا گيا ہے۔ اس تحریک کی جانب سے بدھ يکم مارچ کے روز ريلياں نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
ماضی ميں بھی اس تنظیم کی جانب سے ممتاز قادری کی سزائے موت پر عمل درآمد کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایسی اطلاعات بھی ہيں کہ اس مرتبہ اس اتحاد میں شامل گروپوں کے ارکان لاہور سے اسلام آباد کے نواح ميں واقع اس جگہ تک مارچ کرنا چاہتے ہیں، جہاں ممتاز قادری کو دفنایا گیا تھا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق مسلم اکثريتی آبادی والے ملک پاکستان ميں ہر سال سو سے زائد افراد کے خلاف توہين رسالت یا توہین مذہب کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کر دی جاتی ہے۔ ان ميں سے اکثر مسيحی يا ديگر مذاہب یا مسالک کے ماننے والے ہوتے ہيں۔ اس متنازعہ پاکستانی قانون کے ناقدين کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون اکثر ذاتی دشمنیاں نمٹانے يا ذاتی مفادات کے ليے غلط استعمال کيا جاتا ہے۔ تاحال مروجہ اس قانون کے تحت پاکستان میں توہين مذہب کا جرم ثابت ہو جانے پر کسی بھی ملزم کو سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔