ممتاز پاکستانی ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا سفر آخرت پر روانہ
12 فروری 2016فاطمہ ثریا بجیا کی تدفین کراچی کے علاقے ڈیفینس کے گزری قبرستان میں عمل میں آئی۔ اُن کے جنازے میں شریک شخصیات میں اُن کے دوستوں، اُن کے ساتھ کام کرنے والوں اور اُن کے مداحوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں شو بزنس سے وابستہ ستارے، سیاستدان اور دانشور بھی شامل تھے۔
مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ نمازِ جنازہ سے کئی گھنٹے پہلے ہی ٹیلی وژن اور پرنٹ میڈیا کے افراد اُس گلی میں آنا شروع ہو گئے تھے، جہاں بجیا نے اپنی زندگی کے آخری ایام بسر کیے۔ ان میں اداکار ندیم، مصطفیٰ قریشی، شکیل، بہروز سبزواری اور قاضی واجد بھی شامل تھے۔ وہاں یہ اور دیگر سوگوار بجیا کے چھوٹے بھائی اور خود ایک مشہور و معروف ادیب و ڈرامہ نگار انور مقصود سے مل کر تعزیت کرتے رہے۔
اس موقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ممتاز ادیبوں اور دانشوروں نے کہا کہ فاطمہ ثریا بجیا کے جانے سے ایک پورے عہد کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ دیگر کا کہنا یہ تھا کہ اُن جیسے لوگ مرتے نہیں بلکہ اپنی تحریروں میں زندہ رہتے ہیں۔
بجیا کے پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے لیے ڈراموں میں اے آر خاتون کے ناول پر مبنی سیریل ’شمع‘ کے ساتھ ’افشاں‘، ’عروسہ‘، ’آگہی‘، ’انا‘ اور ’زینت‘ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے تاریخی کھیل بھی لکھے اور بچوں اور خواتین کے پروگراموں کے ساتھ ساتھ ’اوراق‘ جیسے ادبی پروگرام بھی کیے۔
فاطمہ ثریا بجیا کو اُن کی ادبی خدمات کے بدلے میں کئی مقامی اعزازات کے ساتھ ساتھ جاپان کے بھی اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے نوازا گیا۔ وہ پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن کی صدر بھی رہیں۔
1930ء میں پیدا ہونے والی بجیا کا تعلق حیدرآباد دکن کے ایک علمی گھرانے سے تھا اور وہ اپنے نو بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ اٹھارہ ستمبر 1948ء کو کراچی منتقل ہو گئیں۔
انہوں نے ساری تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ وہ عربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان و ادب پر گہری دسترس رکھتی تھیں۔ اُن کی ایک بہن زہرہ نگاہ پاکستان کی ایک ممتاز شاعرہ ہیں جبکہ ایک بہن زبیدہ طارق آج کل ’زبیدہ آپا‘ کے نام سے کھانے پکانے کے پروگراموں کی میزبانی کے لیے مشہور ہیں۔