1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ممدانی کی جیت نے یورپ کی لیفٹسٹ پارٹیوں کو متحرک کر دیا

جاوید اختر روئٹرز کے ساتھ
6 نومبر 2025

نیویارک سٹی کے میئر کے طور پر زہران ممدانی کی فتح نے یورپ کی بائیں بازو کی جماعتوں کو اپنے ملک میں دائیں بازو کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف متحرک کر دیا ہے۔

زہران ممدانی
ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ جماعتیں جو انتخابات جیتنا چاہتی ہیں، یا دائیں بازو کی پاپولسٹ ووٹروں کے نقصان سے بچنا چاہتی ہیں، انہیں زہران ممدانی کی کامیابی سے سبق لینا چاہیے تصویر: Jeenah Moon/REUTERS

نیویارک سٹی کے میئر کے طور پر زہران ممدانی کے غیر معمولی عروج نے یورپ کی بائیں بازو کی جماعتوں میں ایک نیا حوصلہ پیدا کر دیا ہے کہ اپنے ملکوں میں دائیں بازو کی قوتوں کے خلاف ایک بے جھجک اور انقلابی ایجنڈا حالات کو بدلنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

لندن سے برلن تک کی جماعتوں نے 34 سالہ ممدانی کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔ ممدانی خود کو "ڈیموکریٹک سوشلسٹ" کہتے ہیں۔ کرایہ کنٹرول کے وعدے، اور امیروں پر ٹیکس لگانے کے منصوبے کی ان کی وائرل ویڈیوز، نے ایک ایسے شہر میں ووٹروں کے دلوں کو جیت لیا جو عالمی سرمایہ داری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

جرمنی کی دی لیفٹ پارٹی اور برطانیہ کی گرین پارٹی جیسی جماعتیں ممدانی کی جیت سے تحریک حاصل کرنے کی امید کر رہی ہیں۔ وہ اب یہ بات کھلے طور پر کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنی پالیسیوں کو نرم نہیں کریں گی اور نہ ہی دائیں بازو کے مہاجرت مخالف بیانیے میں الجھیں گی۔

یہ کامیابی برطانیہ کی اہم بائیں بازو کی جماعتوں، جیسے کہ حکمران لیبر پارٹی، جو گزشتہ سال کی تاریخی انتخابی فتح کے بعد عوامی سروے میں گراوٹ کا شکار ہے، اور جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹس (ایس ڈی پی) کے لیے بھی غور و فکر کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

یورپ کی بائیں بازو کی جماعتیں ممدانی کی جیت سے تحریک حاصل کرنے کی امید کر رہی ہیںتصویر: IMAGO/MediaPunch

’امید کی نفرت پر فتح‘

زیک پولانسکی، جو اس سال برطانیہ اور ویلز کی گرین پارٹی کے پہلے یہودی اور کھلے عام ہم جنس پسند رہنما بنے، کو ممدانی سے اس بات پر تشبیہ دی جا رہی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال کرتے ہیں اور عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے دولت پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

پولانسکی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے روئٹرز کو بتایا کہ ممدانی کی جیت اس بات کا ثبوت ہے کہ ''امید نے نفرت پر فتح حاصل کر لی ہے۔‘‘

پولانسکی نے کہا، ''یہ بہت اہم ہے، صرف اس لیے نہیں کہ یہ نیویارک کے لیے اہم ہے بلکہ دراصل اس لیے کہ اس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ یہ لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے اور اس عدم مساوات کو تسلیم کرنے کے بارے میں ہے جو نہ صرف نیویارک کے دل میں بلکہ صاف الفاظ میں کہیں تو دنیا کے بیشتر حصوں میں موجود ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہمیں لوگوں کے بل کم کرنے چاہییں اور کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں پر ٹیکس عائد کرنا چاہیے۔‘‘

پولانسکی کی پارٹی، جس نے 2024 میں صرف چار نشستیں حاصل کی تھیں، اب سروے میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔

برطانیہ میں روزمرہ کی زندگی کی بڑھتی لاگت ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے، مثال کے طور پر مارچ 2023 میں خوراک کی قیمتوں میں افراطِ زر 19 فیصد تک پہنچ گیا، جو پچھلے 45 سال کی بلند ترین شرح تھی۔

وزیرِ خزانہ ریچل ریوز نے عندیہ دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں "مشکل فیصلے" اور ممکنہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

جرمنی کی لیفٹ پارٹی کے سربراہ یان فان اکن کا کہنا ہے کہ نیویارک کے لوگوں کو درپیش مسائل بالکل ویسے ہی ہیں جیسے جرمنی میں لوگوں کے گھروں کے دروازوں پر سنتے ہیںتصویر: Chris Emil Janßen/IMAGO

جرمنی کی لیفٹ پارٹی رفتار بڑھانا چاہتی ہے

جرمنی کی لیفٹ پارٹی، سیاسی طور پر منقسم منظرنامے میں، فروری میں ہونے والے وفاقی انتخابات میں ایک حیران کن پرفارمر ثابت ہوئی، اور اب وہ اگلے سال ہونے والے مقامی انتخابات،بشمول دارالحکومت برلن، میں اپنی مضبوط کارکردگی کو مزید آگے بڑھانے کی امید کر رہی ہے۔

دیگر یورپی بائیں بازو کی جماعتوں کی طرح، اس کے ارکان نے بھی انتخابی مہم کے دوران نیویارک کا دورہ کیا۔

جرمنی کی لیفٹ پارٹی کے سربراہ یان فان اکن نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ''نیویارک کے لوگوں کو درپیش مسائل بالکل ویسے ہی ہیں جیسے ہم یہاں جرمنی میں لوگوں کے گھروں کے دروازوں پر سنتے ہیں۔ کرایے ناقابلِ برداشت ہو چکے ہیں، اور خوراک، بجلی، حرارت اور پبلک ٹرانسپورٹ کی قیمتیں اجرتوں سے کہیں تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہیں۔‘‘

انہوں نے ایک ای میل میں کہا: ''ہم زہران ممدانی اور ان کی ٹیم کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور ایک دوسرے سے سیکھ رہے ہیں۔ ان کی انتخابی مہم اگلے سال برلن میں ہونے والے انتخابات کے لیے ایک بلیو پرنٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ زہران ممدانی کی فتح نے ہمیں نئی رفتار اور حوصلہ دیا ہے۔‘‘

جرمنی کی لیفٹ پارٹی بھی کرایہ کنٹرول اور مفت یا کم قیمت عوامی ٹرانسپورٹ کے حق میں مہم چلا رہی ہے، اور اس کا انداز نہایت صاف گو اور بے لاگ ہے۔ اس کی ایک انتخابی مہم کے پوسٹر پر لکھا تھا: ''ہم امیروں کے خلاف میدان میں اُترے ہیں، اور یہ کوئی دوسرا نہیں کر رہا۔‘‘

فرانس کی انتہائی بائیں بازو کی جماعت 'فرانس ان باؤڈ‘ کی رہنما مانون اوبری نے ایکس پر لکھا، زہران ممدانی کی فتح میں پوری دنیا کی بائیں بازو کی جماعتوں کے لیے ایک سبق ہےتصویر: Sebastien Salom-Gomis/AFP/Getty Images

فرانس میں بھی بائیں بازو کو تقویت

اسی طرح فرانس کے بائیں بازو کے رہنما بھی، جہاں 2027 تک صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، زہران ممدانی کی کامیابی سے متاثر اور پُرعزم نظر آئے۔

فرانس کی انتہائی بائیں بازو کی جماعت 'فرانس ان باؤڈ‘ (ایل ایف آئی) کی رہنما مانون اوبری نے ایکس پر لکھا، ''بالآخر، پوری دنیا کی بائیں بازو کی جماعتوں کے لیے ایک سبق۔ ہم معاشی لبرل ازم کو کمزور کر کے نہیں جیتتے، بلکہ اس کے خلاف ڈٹ کر اور پوری قوت سے لڑ کر کامیاب ہوتے ہیں۔‘‘

جرمنی کی یونیورسٹی آف ہینوور کے سیاسی امور کے ماہر فلیپ کوئکر نے کہا کہ زہران ممدانی کی کامیابی اس بات کی علامت ہے کہ وہ جماعتیں جو انتخابات جیتنا چاہتی ہیں، یا دائیں بازو کی عوامی (پاپولسٹ) جماعتوں کو ووٹروں کے نقصان سے بچنا چاہتی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بنیادی مسائل پر قائم رہیں اور موجودہ مسائل کے حل کے لیے اپنے منفرد حل پیش کریں، بجائے اس کے کہ وہ دائیں بازو کی نقل کر کے مہاجر مخالف پالیسیوں کو اپنائیں۔

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں