پاکستانی الیکشن کمیشن کی طرف سے ممنوعہ فنڈنگ میں جہاں دیا جانے والا فیصلہ کئی حلقوں میں زیر بحث ہے وہیں کچھ مبصرین اس سے پیدا ہونے والی قانونی اور سیاسی پیچیدگیوں پر بھی غور کر رہے ہیں۔
اشتہار
واضح رہے کہ آج الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ وصول کی ہے۔ اس نے غیرملکی افراد اور کمپنیوں سے چندہ لیا ہے اور یہ کہ عارف نقوی کے حوالے سے عمران خان کی طرف سے جمع کرایا گیا حلفیہ بیان بھی غلط تھا۔
اس فیصلے کے بعد حزب اختلاف کی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور نون لیگ عمران خان کو ملنے والے 'صادق اور امین ‘ کے خطاب کو ہدف تنقید بنا رہی ہے۔
نون لیگ کی طرف سے اس فیصلے کے اہم نکات کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب اچھالا جا رہا ہے اور عمران خان پر تنقید کے نشتر چلائے جارہے ہیں۔ جب کہ پی ٹی آئی کا کہنا ہےکہ اس فیصلے کے پیچھے الیکشن کمیشن سے زیادہ کچھ طاقتور عناصر ہیں، جو کسی بھی مقبول عام سیاسی شخصیت کو ملک میں برداشت نہیں کرسکتے۔
نااہلی کی تلوار
ای سی پی نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا ہے، جس میں پوچھا گیا ہے کہ کیوں نا اس ممنوعہ فنڈنگ کو ضبط کر لیا جائے۔ لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فنڈز کی ضبطگی کے علاوہ بھی اس فیصلے کے قانونی پہلو ہیں، جو پی ٹی آئی کے لیے نقصان دے ثابت ہو سکتے ہیں۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے قانونی ماہر کرنل انعام الرحیم ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بہت سارے قانونی نکات ایسے ہیں، جو پی ٹی آئی کے لیے نقصان دے ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' فیصل واوڈا کیس میں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان یہ واضح کر چکا ہے کہ کسی بھی طرح کے حقائق کو چھپانا ایک جرم ہے۔ اگر بیان حلفی میں جھوٹ بولا گیا ہے، تو پی ٹی آئی کے سربراہ کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں نے بھی حقائق چھپانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے چاہے وہ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن ہوں یا اراکین اسمبلی ان کو بھی نااہل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
اشتہار
حنیف عباسی کی درخواست
انعام الرحیم کی دلیل سے سوشل میڈیا پر بھی کچھ قانونی ماہرین اتفاق کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر قانونی ماہرین حنیف عباسی کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں۔ قانونی ماہر ریما عمر نے اس حوالے سے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، '' دوہزار سولہ میں حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن جمع کرائی، جس میں کئی گزارشات میں ایک عمران خان کی ناہلی کی بھی درخواست تھی اور یہ دلیل دی گئی تھی کہ عمران خان نے پی ٹی آئی کی فنڈنگ کے حوالے سے جھوٹے سرٹیفیکیٹس جمع کرائے ہیں۔ عدالت نے جواب دیا تھا کہ عدالت اس سوال کا فیصلہ صرف اس وقت کر سکتی ہے جب الیکشن کمیشن کو اس بات کا ثبوت مل جائے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی ہے۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اگر حنیف عباسی کی درخواست میں اٹھائے گئے سوال کو عدالت میں لے جایا جائے تو اس سے عمران خان کی نااہلی کا سوال اٹھ سکتا ہے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
نااہلی کے سیاسی مضمرات
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اب عمران خان اور پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس طرح کسی مقبول عام رہنما کو اگر نااہل قرار دیا گیا تو اس کے ملک کی سیاست پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے ہی ایک مقبول عام رہنما کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا ہوا اور اب ایک دوسرے رہنما کو بھی اگر نااہل قرار دیا جائے گا، تو اس کے سیاسی طور پر بہت زیادہ خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور ملک میں ایک بہت بڑا سیاسی بحران آسکتا ہے۔‘‘
سہیل وڑائچ کے بقول ایسی نااہلی کی صورت میں پی ٹی آئی کی طرف سے سخت مزاحمت ہوسکتی ہے، جس کے نتائج ملک کے لیے مناسب نہیں ہوں گے۔
قانونی پیچیدگیاں پیدا کی جا سکتی ہیں
پی ٹی آئی بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ اس کے لیے قانونی پیچیدگیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے فوڈ سیکورٹی جمشید اقبال چیمہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ صرف الیکشن کمیشن کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ طاقتور قوتیں بھی ہیں جو اس ملک میں کسی بھی مقبول عام رہنما کو برداشت نہیں کر سکتی۔ خطے میں بہت ساری تبدیلیاں ہورہی ہیں اور یہاں پر امریکہ کی اجارہ داری کے خلاف لوگ اٹھ رہے ہیں اور اس اجارہ داری کو توڑنے میں عمران خان بھی اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔ اس لئے اس کے خلاف سازش کی گئی اور اب یہ کوشش کی جائے گی کہ اسے کسی طرح سیاست سے آؤٹ کیا جائے اور نااہل قرار دیا جائے۔‘‘