ممکنہ اسرائیلی جنگی جرائم کی تفتیش، امریکا کی جانب سے تنقید
17 جنوری 2015جمعے کے روز عالمی فوج داری عدالت کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے، ناکی بندی اور جنگوں کے دوران پیش آنے والے ممکنہ جنگی جرائم کی غیرجانب دار اور شفاف تفتیش شروع کر رہی ہے۔
آئی سی سی کی پراسیکیوٹر فاتو بین سُودا نے جمعے کے روز کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے کیے گئے جنگی جرائم کی تفتیش کی جائے گی، تاکہ ’آزادانہ اور غیر جانب دارانہ طریقے سے حقائق کا جائزہ‘ لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس اگست میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران ہونے والے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات بھی اس تفتیش کا حصہ ہو گی۔ اس جنگ میں 22 کے قریب فلسطینی جب کہ 73 اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں زیادہ تعداد عام شہریوں کی تھی۔
یہ بات اہم ہے کہ فلسطینیوں نے رواں ماہ کے آغاز پر عالمی فوج داری عدالت کی باقاعدہ رکنیت حاصل کی تھی۔ رکنیت حاصل کرنے کے بعد فلسطینیوں کو یہ حق حاصل ہو گیا تھا کہ وہ اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات سے متعلق درخواست بین الاقوامی عدالت میں جمع کرا سکیں۔
امریکی محکمہء خارجہ کی جانب سے جمعے کی شب سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی سی سی کے اس اقدام کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔
امریکی محکمہء خارجہ کے ترجمان جیف راتھکے کے مطابق، ’یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ اسرائیل جسے دہشت گردوں کی جانب سے ہزاروں راکٹوں کا سامنا رہا، جس کے شہریوں کو خوف کے سائے میں رہنا پڑا، عالمی عدالت اسی کے خلاف تحقیقات بھی کر رہی ہے۔‘
اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے عالمی عدالت کی پراسیکیوٹر کے اس بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’مبہم‘ اور ’سازشی‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی انتظامیہ دہشت گرد گروہ حماس کے ساتھ روابط رکھتی ہے اور یہ گروہ جنگی جرائم میں ملوث رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ہاں ایک آزاد عدالتی نظام ہے اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز عالمی قوانین کے تحت کارروائیاں کرتے ہیں۔