منتظری کی تدفین کے موقع پر جھڑپیں اور پتھراؤ
21 دسمبر 2009اپوزیشن کی حامی ایک ویب سائٹ Kaleme.org کے مطابق ان جھڑپوں کے دوران مظاہرین نے سیکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ بھی کیا۔ قبل ازیں Rahesabz.net نامی ویب سائٹ کے مطابق ایرانی اپوزیشن کے بڑے اصلاحات پسند رہنماؤں میر حسین موسوی اور احمد کروبی سمیت پورے ملک سے ہزار ہا افراد نے قم میں تہران حکومت پر تنقید کرنے والے آیت اللہ العظمٰی حسین علی منتظری کے جنازے میں شرکت کی۔ کئی شرکاء سبز پٹیاں باندھے ہوئے تھے جو ایرانی اپوزیشن کا رنگ ہے۔
اس سے قبل ایرانی حکومت نے تہران میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا۔ اصلاحات پسند سیاسی کارکنوں کو قم جانے سے روکنے کے لئے جگہ جگہ ناکے لگائے گئے تھے۔ تبریز سے آنے والے بہت سی گاڑیوں کو بھی قم شہر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
آیت اللہ منتظری کے انتقال کے بعد حکومت نے ایک میڈیا ایڈوائس بھی جاری کی تھی جس کے تحت ملکی اخبارات کو منتظری کے انتقال کی خبر صفحہء اول پر تصویر کے ساتھ شائع کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔
ذرائع ابلاغ کو بظاہر مشورے کے نام پر جاری کئے گئے اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ملکی اخبارات میں صرف منتظری کے انتقال پر دئے جانے والے تعزیتی بیانات شائع کئے جائیں۔
منتظری کی تدفین سے پہلے اصلاحات پسند رہنماؤں میر حسین موسوی اور احمد کروبی نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں اس حکومت مخالف مذہبی رہنما کے انتقال پر ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔ ’جرس‘ نامی ویب سائٹ پر ان دونوں رہنماؤں نے کہا تھا کہ ’سوموار کا دن پورے ملک میں یوم سوگ ہو گا، ہم عوام سے علامہ منتظری کے جنازے میں شرکت کی اپیل کرتے ہیں۔
آیت اللہ منتظری کے انتقال کی خبر عام ہوتے ہی ایرانی صوبے اصفہان میں سیکیورٹی دستوں نے بڑے پیمانے پر گشت شروع کر دیا تھا۔ اصفہان اور قم میں سادہ کپڑوں میں مسلح پولیس اہلکار ابھی تک گشت کر رہے ہیں۔
کئی خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق کئی ایرانی شہروں میں ابھی تک مظاہروں اور اپوزیشن کارکنوں کی سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ممکنہ جھڑپوں کا خدشہ ہے، اور ان شہروں میں ابھی تک کشیدگی بھی برقرار ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے ایک اہم رہنما گنے جانے والے اور صدر احمدی نژاد کی حکومت پر کھلی تنقید کرنے والے عالم دین حسین علی منتظری ہفتے کی شب اپنی رہائش گاہ پر 87 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔
مرحوم منتظری کو بہت زیادہ شہرت اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی کے نائب کے طور پر بھی حاصل ہوئی تھی، تاہم انقلاب کے کچھ عرصہ بعد منتظری اور امام خمینی کے مابین حکومتی پالیسیوں اور انسانی حقوق کی کے احترام سے متعلق حکومتی رویے کے حوالے سے اختلاف بھی پیدا ہوگئے تھے۔
آیت اللہ منتظری علم و دانش کا مرکز سمجھے جانے والے تاریخی شہر قم میں رہائش پذیر تھے، اور انہیں ملکی سیاست بالخصوص اصلاحات پسند حلقوں میں بہت زیادہ اثر ورسوخ کا حامل سمجھا جاتا تھا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک