مندر کی تعمیر کی مخالفت: ’یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟‘
عبدالستار، اسلام آباد
1 جولائی 2020
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر اقلیتی حلقوں میں تو خوشی لہر دوڑ گئی تھی لیکن اب مذہبی تنظیموں کی طرف سے مخالفت نے ہندو کمیونٹی میں بالخصوص مایوسی پیدا کر دی ہے۔
اشتہار
واضح رہے کہ اسلام آباد کے پہلے ہندو مندر کی تعمیرگزشتہ ہفتے شروع ہوئی تھی۔ شری کرشنا نامی یہ مندر ایک کمپلیکس نما عمارت میں ہوگا، جس میں شمشان گھاٹ، کمیونٹی ہال، مہمانوں کے لیے رہائش گاہ اور پارکنگ کی جگہ بھی ہوگی۔ اس کی تعمیر کی منظوری 2017ء میں نون لیگ کی حکومت نے دی تھی تاہم انتظامی معاملات کی وجہ سے اس کی تعمیر میں تاخیر ہوئی۔
ملک کی ہندو کونسل کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی تقریبا 80 لاکھ کے قریب ہے، جس میں زیادہ ترصوبہ سندھ میں رہتے ہیں۔ واضح رہے پاکستان میں تقسیم ہند کے وقت اقلیتوں کی 25 فیصد آبادی تھی، جس میں ایک بڑی تعداد سندھ اور اس وقت کےمشرقی پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کی تھی، اب یہ شرح صرف پانچ فیصد کے قریب ہے۔
مندر کی تعمیر کو پاکستان کے لبرل حلقوں نے سراہا ہے۔ تاہم پاکستان کے مذہبی حلقے اس کی بھر پور مخالفت کر رہے ہیں۔ لاہور کی جامعہ اشرفیہ کے ایک فتوے میں اس کی مخالفت کی گئی ہے۔ یہ فتوٰی سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے۔ ماضی میں اسلام آباد کی لال مسجد سے منسلک رہنے والی شہداء فاؤنڈیشن نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور اس کی تعمیر کے خلاف عدالت جانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ فاؤنڈیشن کی حجت یہ ہے کہ مندر کی تعمیر کے لیے سرکاری زمین نہیں دی جاسکتی۔ جامعہ حفصہ کی پرنسپل اُم حسان نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسلام ایسے کسی نئے مندر کی اجازت نہیں دیتا۔ حکومت کا یہ اقدام شریعت کے خلاف ہے کیونکہ اگر کوئی پرانا شہر ہے جہاں پہلے سے ہی ہندو ور مسلمان رہ رہے ہوں اور جہاں پہلے ہی سے مندر قائم ہوں تو ایسے مندر کو کام کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے اور وہاں پر عبادت بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن حکومت نئے مندر تعمیر نہیں کر سکتی۔ ہم نے پہلے بھی اس کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور ہم اب بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔‘‘
پاکستان میں بھگوان سازی
02:38
مذہبی حلقوں کے اس رویے اور مخالفت کی وجہ سے اقلیتی اور ہندو کمیونٹی میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ مٹھی سندھ سے ہندو کمیونٹی کے رہنما کرشن شرما نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ مخالفت مثبت نہیں ہے کیونکہ ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں۔ ہمیں اس رد عمل پر افسوس بھی ہوا ہے اور مایوسی بھی۔ پاکستان کے آئین کے مطابق تمام شہری برابر ہیں اور قائد اعظم کے تصور پاکستان کے مطابق ریاست کا مذہبی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میرے خیال میں ریاست کو اس مخالفت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام شہری اپنے مذہبی معاملات آزادی سے کام کریں۔‘‘
پاکستان ہندو کونسل کے رہنما اور نیشنل کمیشن آف منارٹیز کے رکن ڈاکٹر جے پال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم اس بات کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ حکومت نے مندر تعمیر کرنے کا آغاز کیا لیکن مجھے اس بات پر تشویش ہے اور افسوس ہے کہ کچھ عناصر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر سننا چاہیے جس میں جناح نے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دینے کی با ت کی ہے۔ تو جو مخالفت کر رہے ہیں، ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم بھی برابر کی شہری ہیں۔‘‘
اقلیتوں کے حقوق، پاکستان بدل رہا ہے
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں یہاں اقلیتوں کی بہبود سے متعلق چند ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بدل رہا ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
ہندو میرج ایکٹ
سن 2016 میں پاکستان میں ہندو میرج ایکٹ منظور کیا گیا جس کے تحت ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کی شادیوں کی رجسٹریشن کا آغاز ہوا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد مذہب کی جبری تبدیلی اور بچپنے میں کی جانے والی شادیوں کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔
تصویر: DW/U. Fatima
غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون
پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پر قتل کے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں۔ سن 2016 میں پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو اُس کے بھائی نے مبینہ طور پر عزت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ قندیل بلوچ کے قتل کے بعد پاکستانی حکومت نے خواتین کے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون منظور کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PPI
ہولی اور دیوالی
پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف نے حال ہی کراچی میں میں ہندوؤں کے تہوار میں شرکت کی اور اقلیتوں کے مساوی حقوق کی بات کی۔ تاہم پاکستان میں جماعت الدعوہ اور چند دیگر تنظیموں کی رائے میں نواز شریف ایسا صرف بھارت کو خوش کرنے کی غرض سے کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
خوشیاں اور غم مشترک
کراچی میں دیوالی کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے سب شہریوں کو ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔
تصویر: Reuters
کرسمس امن ٹرین
حکومت پاکستان نے گزشتہ کرسمس کو پاکستانی مسیحیوں کے ساتھ مل کر خاص انداز سے منایا۔ سن 2016 بائیس دسمبر کو ایک سجی سجائی ’’کرسمس امن ٹرین‘‘ کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے مسیحی برادری کے ساتھ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے پیغام کے طور پر روانہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
کئی برس بعد۔۔۔
اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کو پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام معنون کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق احمدی فرقے سے تھا جسے پاکستان میں مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔ فزکس کے اس پروفیسر کو نوبل انعام سن 1979 میں دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پاکستان میں سکھ اقلیت
پاکستان میں سکھ مذہب کے پیرو کاروں کی تعداد بمشکل چھ ہزار ہے تاہم یہ چھوٹی سی اقلیت اب یہاں اپنی شناخت بنا رہی ہے۔ سکھ نہ صرف پاکستانی فوج کا حصہ بن رہے ہیں بلکہ کھیلوں میں بھی نام پیدا کر رہے ہیں۔ مہندر پال پاکستان کے پہلے ابھرتے سکھ کرکٹر ہیں جو لاہور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں کرکٹ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images
7 تصاویر1 | 7
پاکستان کے ترقی پسندی حلقے اس مخالفت کو مذہبی طبقات کی منافقت قرار دے رہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند دانشور فاروق طارق کا کہنا ہے کہ ہمارے مولوی پوری دنیا میں مسجدیں بنا رہے ہیں اور یہاں وہ اقلیتوں کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں: ''یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔ یورپ میں تو مولوی مقامی حکومتوں سے مسجد و مدرسے کی تعمیر کے لیے فنڈنگ لے رہے ہیں۔ پورے یورپ اور دوسرے غیر مسلم ممالک میں مساجد تعمیر کر رہے ہیں اور یہاں ایک مندر کے تعمیر ہونے پر یہ شور مچا رہے ہیں۔ ہم اس تعمیر کو مثبت سمجھتے ہیں اور جو مولوی اس کی مخالفت کر کے اپنی سیاست چمکا رہے ہیں، ہم ان کی مذمت کرتے ہیں۔‘‘
کٹاس راج کے مندر، ایک عظیم ثقافتی ورثہ
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں چؤا سیدن شاہ کے نزدیک کوہستان نمک کے سلسلے میں کٹاس نامی گاؤں ہندوؤں کا انتہائی تاریخی اور مقدس مقام ہے، جس کا ذکر تین صدی قبل از مسیح میں لکھی گئی مہابھارت تک میں بھی ملتا ہے۔
تصویر: Ismat Jabeen
ہندو آبادی ناپید
شری کٹاس راج کہلانے والی یہ انتہائی قدیم ہندو مذہبی باقیات چکوال شہر سے قریب تیس کلو میٹر جنوب کی طرف کلر کہار روڈ پر واقع ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل یہاں ہندوؤں کی اچھی خاصی آبادی تھی لیکن انیس سو سینتالیس میں یہاں کے تمام ہندو نقل مکانی کر کے بھارت چلے گئے تھے۔ کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس کے مندروں میں سے رام چندر مندر، ہنومان مندر اور شیو مندر خاص طور پر نمایاں ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
متعدد مندروں پر مشتمل کمپلیکس
کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس کوئی ایک مندر نہیں بلکہ کم از کم سات ہندو مندروں سمیت سکھوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت کے پیرو کاروں کے مقدس مقامات اور تاریخی عبادت گاہوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے، جس کا انتظام متروکہ وقف املاک بورڈ اور محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے پاس ہے۔ مذہبی احترام کی وجہ سے مندروں میں داخل ہونے والے سیاحوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ننگے پاؤں اور سر ڈھانپ کر آئیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
ہندو دیوتا شیو کے آنسو
ہندو مذہبی روایات کے مطابق جب شیو نامی دیوتا کی بیوی ستی کا انتقال ہوا تو شیو اتنا روئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک نہ ختم ہونے والی لڑی جاری ہو گئی۔ اس طرح ہندوؤں کے لیے مقدس دو تالاب وجود میں آئے، جن میں سے ایک پشکار (اجمیر میں) ہے اور دوسرا کٹکشا۔ سنسکرت میں کٹکشا کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے۔ یہی لفظ کٹکشا صدیوں بعد بدلتا بدلتا اب کٹاس بن چکا ہے۔
تصویر: Ismat Jabeen
سب سے اونچے مندر سے نظر آنے والا منظر
شری کٹاس راج کی یہ تصویر وہاں کے سب سے اونچے مندر سے لی گئی ہے، جس میں مرکزی تالاب، اس کے ارد گرد قائم مندر، حویلی، بارہ دری اور پس منظر میں موجود مندر کا مینار تک بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ تصویر کے بائیں کونے میں اوپر کی طرف مقامی مسلمانوں کی ایک مسجد بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک ہندو روایت کے مطابق کوروں کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد پانڈوں نے کٹاس میں بارہ سال گزارے تھے اور متعدد مندر تعمیر کروائے تھے۔
تصویر: Ismat Jabeen
قدرتی چشمے
کٹاس کی شہرت کی ایک بہت اہم وجہ وہ قدرتی چشمے بھی ہیں، جن کے پانیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مل جانے سے گنیا نالہ وجود میں آیا تھا۔ کٹاس راج کے تالاب کی گہرائی تیس فٹ ہے اور یہ تالاب آہستہ آہستہ خشک ہوتا جا رہا ہے۔ شری کٹاس راج کے مندروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ تالاب کے ارد گرد یا قریب ہی یہ مرکزی مندر اور دیگر عبادت خانے دو دو کے جوڑوں کی شکل میں بنائے گئے ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
پہاڑی علاقے میں مندر اور معبد
کوہستان نمک کا پورا علاقہ چھوٹی بڑی پہاڑیوں پرمشتمل ہے، جہاں صدیوں پہلے زیادہ تر ہندو مندر ایسی پہاڑی چوٹیوں پر بنائے گئے کہ ان تک پہنچنے کے لیے بل کھاتی پتھریلی سیڑھیوں کا ایک طویل سلسلہ عبور کرنا پڑتا تھا۔ یہ صورت حال آج تک قائم ہے۔ اس تصویر میں کٹاس راج کا مرکزی مندر اور اس کے قریب ہی دیگر معبد نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
دیواروں پر صدیوں پرانے نقش و نگار
یہ انتہائی خوبصورت نقش و نگار اور تصاویر کے ذریعے رنگا رنگ عکاسی اس حویلی کی اندرونی دیواروں پر نظر آنے والے مناظر ہیں، جو یہاں صدیوں قبل سکھ جنرل ہری سنگھ نلوا نے تعمیر کروائی تھی۔ اس حویلی کے دیوان خانے اور زنان خانے کی باقیات آج بھی حیران کن حد تک اچھی حالت میں موجود ہیں۔ ان قدیم باقیات کے مذہبی دوروں کے لیے آج بھی دنیا بھر سے ہر سال ہزارہا ہندو اور سکھ یاتری کٹاس راج کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
ہندوؤں کا ہاتھی دیوتا گھنیش
جنرل ہری سنگھ نلوا کی طرف سے بنوائی گئی حویلی کے دیوان خانے کی ایک دیوار پر نظر آنے والی ہندوؤں کے ہاتھی دیوتا گھنیش کی ایک تصویر، جس میں گھنیش کو مختلف جانوروں کو کھانے کے لیے کچھ پیش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسی ہر تصویر کسی نہ کسی دیومالائی ہندو مذہبی روایت کی عکاسی کرتی ہے۔ کٹاس راج کے مندروں کی تعمیر میں زیادہ تر چونا استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: Ismat Jabeen
نلوا کی حویلی کے جھروکے
سکھ جنرل نلوا نے کٹاس راج میں جو حویلی تعمیر کروائی، اس کے چند جھروکے آج بھی کافی حد تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ اس تصویر میں دیوان خانے کے ایک جھروکے کی اندرونی دیواروں پر کی گئی رنگا رنگ نقش نگاری اور اس جھروکے سے نظر آنے والا کٹاس راج کا منظر دونوں دیکھے جا سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کٹاس راج کا قدیم ترین اسٹوپا اشوک اعظم نے تعمیر کروایا تھا۔
تصویر: Ismat Jabeen
بیتی صدیوں کے اثرات
اس تصویر میں کٹاس راج کی کئی عمارات بیک وقت دیکھی جا سکتی ہیں، جن میں مندر بھی ہیں،حویلی بھی اور کئی دروازوں والی قیام گاہیں بھی۔ کئی عمارات کے مختلف حصوں کے ارد گرد آہنی جنگلے محکمہ آثار قدیمہ پنجاب نے لگوائے، جن کا مقصد اس عظیم اور تاریخی ورثے کو وقت کے ہاتھوں مزید ٹوٹ پھوٹ سے روکنا تھا۔ اس تصویر میں نظر آنے والی عمارات پر بیتی صدیوں کے گہرے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
مخصوص طرز تعمیر والی بارہ دری
کٹاس راج کی اپنے مخصوص طرز تعمیر اور گنبد والی یہ بارہ دری دیگر مندروں کے مقابلے میں کئی صدیاں بعد تعمیر کی گئی تھی۔ اس لیے اس بارہ دری کی حالت دیگر مندروں اور معبدوں کے مقابلے میں بہت اچھی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق کٹاس راج کے اکثر چھوٹے مندر قریب نو سو برس قبل تعمیر کیے گئے تھے لیکن ان میں سے اولین کی چھٹی صدی عیسوی میں ہندو شاہیہ کے دور میں تعمیر کے شواہد بھی موجود ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
مذہبی اہمیت اور عسکری ضرورت
محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق اس تصویر میں سامنے نظر آنے والا مندر بھی قریب نو سو سال قبل لیکن کافی بعد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ لیکن پس منظر میں پہاڑی پر قائم قلعہ نما عمارت اس سے بھی کافی عرصہ قبل تعمیر کی گئی تھی، جو بنیادی طور پر عسکری نوعیت کی ایک عمارت تھی۔ تصویر میں دائیں طرف ایک بدھ اسٹوپا کی طرز پر تعمیر کردہ چھوٹی سی عبادت گاہ اس دور کی تعمیرات پر بدھ مت کے اثرات کا پتہ دیتی ہے۔
تصویر: Ismat Jabeen
اسٹوپا نما مندر میں شیو لِنگ
اس طاقچوں والے اسٹوپا نما مندر میں ہندو دیوتا شیو سے منسوب شیو لِنگ رکھا ہوا ہے، جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی انیسویں صدی کے آخر میں تیارکردہ دستاویزات کے مطابق کٹاس راج چھٹی صدی عیسوی سے لے کر بعد کی کئی صدیوں تک ہندوؤں کا ایک انتہائی مقدس مقام تھا۔ تاریخی شواہد موجود ہیں کہ کٹاس راج ان قدیم ہندو مندروں میں سے ایک تھا، جہاں پہلی مرتبہ شیو لِنگ کی پوجا شروع کی گئی تھی۔
تصویر: Ismat Jabeen
مونگے کی چٹانیں اور فوصل شدہ آبی حیات
شری کٹاس راج کے مندروں اور دوسری عمارات کے کئی حصوں میں مونگے کی چٹانوں، جانوروں کی ہڈیوں اور فوصل شدہ آبی حیات کی ایسی قدیم باقیات دیکھی جا سکتی ہیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان صدیوں پرانے آثار کی تعمیر میں سمندری یا دریائی پانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کٹاس راج میں اس تصویر میں نظر آنے والے فوصلز کی طرح کے بہت سے قدیم حیاتیاتی نمونے دیکھنے میں آتے ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
شیو اور ستی کی رہائس گاہ
متعدد ہندو دیو مالائی داستانوں کے مطابق شیو نامی دیوتا نے ستی نامی دیوی کے ساتھ اپنی شادی کے بعد کئی سال کٹاس راج میں ہی گزارے تھے۔ ہندو عقیدے کے مطابق کٹاس راج کے تالاب میں نہانے والوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ دو ہزار پانچ میں جب بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی پاکستان آئے تھے تو انہوں نے خاص طور پر کٹاس راج کی یاترا کی تھی۔