منشیات، بھارت میں ایڈز کی ایک بالواسطہ وجہ
6 اپریل 2010ان میں سے ایک درجن کے قریب افراد دریائے یمونا کے کنارے واقع عمارت میں قائم ایک امدادی ادارے "شرن" میں آرام کی غرض سے بیٹھے تھے، جہاں وہ استعمال شدہ سرنجوں کی تبدیلی اورعلاج کے لئے جمع ہوتے تھے۔ لیکن اس ادارے کی جانب سے ان کی مدد کرنے کا بنیادی مقصد انہیں ایچ آئی وی ایڈز سے بچانا تھا۔
بھارتی وزارت صحت کے مطابق جنوبی افریقہ اور نائجیریا کے بعد بھارت دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں ایچ آئی وی ایڈز سےبڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں جن کی تعداد دو اعشاریہ پانچ ملین ہے۔ ان میں سے منشیات کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد صرف 18 ہزار ہے۔ انجکشنز کے ذریعے ایچ آئی وی ایڈز سے متاثر ہونے والوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، 2007 میں یہ تناسب سات عشاریہ دو فیصد تھا جو 2008 میں 9 عشاریہ 2 فیصد تک پہنچ گیا۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ممکن ہے اس شرح میں مزید اضافہ بھی ہوا ہو۔
امدادی ادارے "شرن" کا اہلکارشباب عالم کہتا ہے کہ ایڈز کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ان کے لئے اب مسئلہ بن رہی ہے ۔ "ہمارے پاس آنے والوں میں سے اکثر کو یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں انہیں ایڈز تو نہیں ؟ اس لئے ہم نہ صرف ان کا علاج کرتے ہیں بلکہ ان کومشورے بھی دیتے ہیں۔"
ایک شخص جو اپنا نام نہیں بتا رہا تھا ، نے کہا کہ وہ 20 سال پہلے نئی دہلی آیا، اس وقت وہ نوجوان تھا ۔ جب اس کو کہیں بھی ملازمت نہیں ملی تومایوس ہو کر اس نے نشہ شروع کیا۔ ہیروئن، پین کلر، اور ڈپریشن ختم کرنے والی دوائیاں، حتیٰ کہ نشے کی جو بھی چیزاسے ملی، اس نے استعمال کی۔ اب وہ اس سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ اسے ایڈز نہ ہو جائے۔
کچھ سال پہلے تک منشیات کی وجہ سے ایڈز پھیلنے کے واقعات ملک کے شمال مشرقی علاقے منی پور، جو میانمار کی سرحد کے قریب واقع ہے، میں زیادہ تھے۔ یہ علاقہ علٰیحدگی پسند فسادات سے بہت زیادہ متاثرہوا ہے۔ وہاں دہلی سے 2500 کلو میٹر دور1980ء کی دہائی میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے میانمار کی لیبارٹریوں سے ہیروئن کی سمگلنگ کے دوران اس کو پینابھی شروع کیا۔ ان میں سے بہت سوں نے آپس میں سرنجز کا تبادلہ کیا اور یوں انہیں ایچ آئی وی ایڈزہوگیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ 1990ء تک ان میں سے دو تہائی افراد مکمل طور پر اس مرض میں مبتلا ہو گئے اوران میں سے اکثر تو مرہی گئے۔ بھارتی وزارت صحت و بہبود آبادی کے سیکرٹری سجاتا راؤ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں یہ مسئلہ جو اس وقت بہت دور تھا اب ان کے انتہائی قریب آ پہنچا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ غیر سرکاری اداروں کے تعاون سے شمال مشرقی علاقوں میں تو صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن دہلی اور شمالی ریاستوں، پنجاب اور ہریانہ میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ صورتحال ان کے لئے نئی ہے اور وہ نہیں جانتی کہ منشیات کے استعمال میں ہونے والے اس اضافے کو کیسے روکا جائے تاہم حکومت نے دو عشاریہ 4 بلین ڈالر سے چلنے والےپانچ سالہ "ایڈز کنٹرول پروگرام" کے تحت پہلے قدم کے طور پر انجکشن کے ذریعے میشیات استعمال کرنے والوں کوخطرناک قرار دیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت انجکشن کے بجائے نشے کے متبادل طریقوں پر غور کیا جا رہا ہے۔ منشیات کے عادی افراد کو کہا جا رہا ہے کہ وہ سرنج کے بجائے منہ کے ذریعے متبادل ڈرگز استعمال کریں تو اس سے وہ ایچ آئی وی ایڈز سے بچ سکیں گے۔
سجاتا راؤکہتی ہیں کہ بھارت میں ایسے 220 کے قریب مراکز یہ سروس فراہم کر رہے ہیں لیکن ان کو حکومتی سرپرستی میں لانا ایک مشکل کام تھا۔ کیونکہ کافی عرصے تک بیوروکریٹس نے اس لئے اس کو نظر انداز کیا کہ ان کے خیال میں نشے کے لئے متبادل ذرائع استعمال کرنے سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ لیکن شباب عالم کا تجربہ اس سے مختلف ہے، اس کا خیال ہے کہ اس پروگرام میں وہ لوگ شریک ہوتے ہیں جو کافی عرصے سے نشہ کر رہے ہوں، ان کے لئے حوصلہ افزائی کا تو مسئلہ ہی نہیں ہے۔ "شرن" کے دفتر میں منشیات کے عادی یہ افراد ادارے کے اہلکاروں کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں ،کہ وہ انہیں نشے کی گولیاں دیں گے۔ شباب عالم کہتا ہے کہ یہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے سامنے ہی وہ دوائی منہ میں ڈالیں گے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس کو اپنے پاس رکھیں اور بعد میں بیچ ڈالیں۔ اب ان میں سے بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ علاج انہیں ایڈز سے محفوظ رکھے گا اورشاید انہیں نشے کی لعنت سے بچا بھی سکے۔
رپورٹ : بخت زمان
ادارت : کشورمصطفیٰ