1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منصف کی چیخ !

مطیع اللہ جان
21 جولائی 2020

پاکستانی عدلیہ کے بیشتر معزز جج صاحبان پر زمینی سیاسی حقائق آشکار ہونا شروع ہو چکے ہیں جن کے جاننے کے بعد وہ قابل عمل سخت احکامات نہ سہی مگر اپنی رائے اور ریمارکس کے ذریعے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ مطیع اللہ جان کا بلاگ

Mati Ullah | Journalist und ehemaliger Moderator
تصویر: Privat

عمر رسیدہ اپوزیشن جماعتیں اور ستم رسیدہ چند صحافی حضرات جولائی 2018ء کے انتخابات اور پھر حکومت کی احتسابی پالیسی سے متعلق جن خدشات کا اظہار شروع دن سے کر رہے تھے ان خدشات کا اظہار اب سپریم کورٹ کے ججز حضرات اپنے ریٹائرمنٹ والے دن یا اپنے فیصلوں میں کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ویسے تو ابھی بھی کچھ معزز جج صاحبان کو کمرہ عدالت میں اونچی جگہ پر بیٹھ کر ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی ہی بالا دستی نظر آتی ہے مگر بیشتر معزز جج صاحبان پر زمینی سیاسی حقائق آشکار ہونا شروع ہو چکے ہیں جن کے جاننے کے بعد وہ قابل عمل سخت احکامات نہ سہی مگر اپنی رائے اور ریمارکس کے ذریعے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔

پیر 20 جولائی کو سپریم کورٹ نے ایک نیب کیس میں اپوزیشن سیاست دان خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو بہت پہلے سے دی گئی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا، مگر بات ضمانت سے نکل کر بہت دور تک چلی گئی۔ آخر اس گھٹن، خوف اور دباؤ کی فضا میں عدلیہ اور میڈیا کے با ضمیر 'عناصر‘ اپنی بات کو چیخے چلائے بغیر اور کیسے لوگوں تک پہنچائیں؟ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کے اس تفصیلی فیصلے نے نہ صرف وزیر اعظم عمران خان کے کرپشن کے خلاف بیانیے کا پوسٹ مارٹم کر دیا ہے بلکہ ملک میں جاری اداراتی سازشوں اور ان کے نتیجے میں جمہوری اور عدالتی نظام کو تباہ کرنے والی قوتوں کی بھی نشاندھی کر دی ہے۔ فیصلے میں دو معزز ججوں نے ملکی سیاست اور اداراتی سازشوں کی جو منظر کشی کی ہے وہ اتنی شرمناک ہے کہ جس کا سایہ ان دو معزز ججوں کے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں ان کے اپنے فیصلے پر بھی پڑ رہا ہے۔ پہلے دیکھتے ہیں کہ جسٹس باقر اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے جسٹس فائز عیسی کیس کے 10 رکنی بنچ کا بھی حصہ ہوتے کیا فیصلہ دیا اور پھر اس تازہ ترین یعنی خواجہ سعد رفیق ضمانت کیس میں یہ کیا کہتے ہیں۔

جسٹس باقر، جسٹس فائز عیسٰی کیس کی سماعت کے دوران سعد رفیق ضمانت کیس کا تفصیلی فیصلہ لکھ رہے تھے اور اسی دوران ایک سماعت میں انہوں نے ریمارکس دیے کہ احتساب کے نام پر جو کھلواڑ اس ملک کے سیاسی نظام اور اداروں کے ساتھ کھیلا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد جسٹس عیسٰی کیس کے فیصلے میں بھی جسٹس باقر نے نہ صرف دس ججوں سمیت صدارتی ریفرنس کے پرخچے اڑا دیے بلکہ ساتھ ہی سات ججوں کے اکثریتی فیصلے کے برخلاف ایف بی آر اور پھر جوڈیشل کونسل کے ذریعے جج کے اہل خانہ کی مزید تحقیقات کی بھی مخالفت کر دی۔ یہ تو تھی منصف کی مستقل مزاجی کی مثال۔ مگر دوسری طرف جہاں جسٹس میاں مظہر عالم احتساب اور ملک میں جاری اداراتی سازشوں کے حوالے سے جسٹس باقر کے تحریر کردہ خواجہ برادران کی ضمانت کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں وہاں جسٹس فائز عیٰسی کیس میں انہی سازشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جسٹس عیسٰی کے اہل خانہ کی ایف بی آر کے ذریعے مزید تحقیقات کے لیے سات ججوں کے فیصلے میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ گھٹن اور دباؤ کے اس ماحول میں چند صحافیوں کی طرح اپنی ساکھ بچانے کے لیے منصفوں کو بھی کیا کیا جتن کرنا پڑ رہے ہیں، کبھی ادھر تو کبھی ادھر تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد موقع  کی مناسبت سے اپنے فیصلوں کا حوالہ دے کر سرخرو ہوا جا سکے۔

اب دیکھتے ہیں کہ خواجہ برادران سے متعلق ضمانت کے فیصلے میں ایسا کیا ہے جو ’’قاضی برادران‘‘ کے فیصلے پر اپنا سایہ ڈالتا ہے۔ خواجہ برادران کو دی گئی ضمانت کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس باقر اور جسٹس عالم بظاہر موجودہ ملکی صورت حال سے اتنے تنگ آمد بجنگ آمد ہوئے کہ بات ضمانت سے بھی آگے نکل گئی۔ آخر میں ''دوائیں بچوں سے دور رکھیں‘‘ کی مانند تیز تیز یہ تو لکھ دیا کہ یہ ریمارکس عارضی نوعیت کے تھے اور ان کا نیب کے اصل ریفرنس پر کوئی اثر نہ پڑیگا۔ مگر حقیقت میں اس فیصلے نے خواجہ برادران کے خلاف نیب کے سارے کیس اور شواہد کا تفصیل کے ساتھ تیا پانچہ کر دیا ہے، بلکہ نیب اور اس کے ''محبوب‘‘ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال، اپنی عدلیہ اور نام نہاد اسٹیبلشمنٹ کا بیچ چوراہے میں سر سے لیکر پاؤں تک ''سٹیم رول‘‘ کر دیا ہے۔

پانامہ کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ماریو پوزو کے گاڈ فادر کے بابرکت نام سے جو فیصلہ لکھنا شروع کیا تھا اس فیصلے کی اصلیت جسٹس باقر نے جان اسٹوئرٹ مِل (John Stuart Mill) کے بے برکت نام سے اپنا فیصلہ شروع کر کے آشکار کر دی ہے۔ جسٹس باقر اپنے فیصلے کی ابتدا جان سٹوئرٹ مل کے اس مشہور قول سے کرتے ہیں: ''جو ریاست بونے مرد تیار کرتی ہے تاکہ ان کو ایک اطاعت گزار آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکے، چاہے مقصد نیک ہی کیوں نہ ہو، وہ جلد جان جاتی ہے کہ ایسے چھوٹے لوگوں کی ساتھ کوئی بڑے ریاستی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔‘‘

اس کے بعد جسٹس باقر نیب ریفرنس کے شواہد کا ''سر تا پا‘‘ جائزہ لیتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ کس طرح نیب نے اپنے دائرہ کار اور اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے خواجہ برادران کی آئین میں درج آزادیوں اور ان کے حقوق کو سلب کیا۔ چیئر مین نیب کے سامنے ایک وعدہ معاف گواہ کے بیان کو جس بے ڈھنگے اور غیر آئینی طریقے سے ریکارڈ کیا گیا اس سے ادارے کے کردار اور اس کی نظروں میں قانون کی وقعت کا پتہ چلتا ہے۔ وعدہ معاف گواہ کا جب پہلی بار ریکارڈ کیا گیا بیان تسلی بخش نہ ہوا تو احتساب عدالت سے اس امر کو چھپا کر اس کے ریمانڈ میں عدالت سے توسیع لے لی گئی اور پھر دوسری بار بیان ریکارڈ ہوا۔ جب جوڈیشل عدالت میں بیان ریکارڈ کیا گیا تو ملزموں کو اس کی اطلاع ہی نہ دی گئی اور ان کی عدم موجودگی میں سب کچھ ہو گیا جو ضابطہ فوجداری کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ نیب کی نالائقی دیکھیں کہ ریکارڈ ہوئے اس بیان میں بھی ٹھوس شواہد کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ جسٹس باقر نے ایسے دوسرے شواہد کو بھی باریکی سے دیکھا اور رد کر دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ایک نجی ہاؤسنگ سکیم میں جن عوامی شکایات کو کارروائی کی بنیاد بنایا گیا وہ شکایات نیب کے اپنے بیان کے مطابق نیب تحقیقات کے بعد عوام سے طلب کی گئیں، مگر ان شکایات کی نوعیت بھی نیب قانون کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی۔

کیا پاکستان میں ججز کی خفیہ نگرانی جاری ہے؟
چیف جسٹس کا الوداعی خطاب

'عدالتی فیصلے میں سقم ہیں‘

جسٹس باقر کے فیصلے کا اصل محور نیب کا ادارہ ، اس کا سیاسی کردار، اور ملکی سیاسی نظام ہے جس کو چند قوتوں نے یرغمال بنا لیا ہے۔ جسٹس باقر آئین کے ابتدائیے کو دہراتے ہیں کہ یہ ملک اسلامی اصولوں کے مطابق جمہوریت، شہری آزادیوں، برابری، برداشت اور معاشرتی انصاف کے لیے بنا ہے جس میں مذہب اور رائے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین اور قانون کے بغیر کسی شہری کی زندگی اور آزادی سلب نہیں کی جا سکتی۔ انسانی حقوق کی اسلامی اور بین الاقوامی تاریخ کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد جسٹس باقر نے پاکستان کے حالات کا رخ کیا اور پھر اس تمام گھٹن اور دباؤ کو اتار پھینکا جس کا صحافت اور عدالت بظاہر اس وقت بھی شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ برادران کے خلاف نیب کا مقدمہ بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی چھیننے کی غیر قانونی حرکت، اور انسانیت کی تذلیل کی ایک مثال ہے۔ نجانے نیب چیئرمین نے کس بنیاد پر یہ مقدمہ شروع کیا اور خواجہ سعد رفیق کا زیر بحث پیراگون کمپنی سے براہ راست کیا تعلق تھا۔ تاریخ میں لائے گئے تمام احتساب کے قوانین کو ہمارے سیاستدانوں یا عوامی عہدہ رکھنے والوں کو نا اہل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ 1949 کے پروڈا قانون سے لے کر جنرل مشرف کے قومی احتساب بیورو کے قانون تک ان تمام قوانین کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس باقر نے کہا کہ نیب کا موجودہ قانون دن بدن انتہائی متنازعہ ہوتا جا رہا ہے اور تاثریہ  ہے کہ حکمران اسے جبر اور سیاسی انتقام کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ جج صاحب نے کہا کہ بار بار الزام لگ رہا ہے کہ نیب کو سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ بظاہر یہ ادارہ سیاسی تقسیم کے ایک جانب بڑے مالیاتی سکینڈلز کے باوجود کارروائی نہیں کر رہا ہے۔ مگر دوسری طرف کے سیاستدانوں کو بغیر ٹھوس وجوہات کے کئی کئی ماہ اور سال مقدمہ چلائے بغیر جیل میں رکھا جاتا ہے اور پھر ان کے فیصلے بھی نہیں ہوتے۔ جج صاحب نے بظاہر قومی مفاد کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کو بھی پیغام دیا اور کہا یہ سب ملکی مفاد میں نہیں بلکہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔

جسٹس باقر نے اس موقعے پر احتساب کے عمل، ملک میں جاری اداراتی سازشوں اور ماضی کی آمرانہ قوتوں کے کردار کا بڑے واشگاف الفاظ میں پردہ چاک کیا، لکھتے ہیں (اور جسٹس مظہر عالم اس سے اتفاق کر رہے ہیں): ''احتساب کے قوانین کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لیے استعمال کیا گیا، سیاسی جماعتوں کو توڑا گیا اور ان کے دھڑے بنائے گئے، بونے لوگوں (چھوٹی سوچ کے لوگوں) کو ''سیلیکٹ‘‘ کیا گیا، ان کی پرورش کی گئی، ان کو مواقع دیے گئے، مشہور کیا گیا اور اقتدار میں لایا گیا، بدنام زمانہ اور جرائم پیشہ افراد کو ہم پر حکمرانی کے لیے مسلط کیا گیا اور اس کے نتائج بھی توقع کے مطابق نکلے۔ جن لوگوں نے ہمارے معاشرے میں موت، تباہی، اور افراتفری بانٹی انہیں اس کی تربیت، فنڈنگ، تحفظ، مواقع دیے گئے اور ان کے قصیدے پڑھے گئے جس کے بعد وہ سب ایک بے قابو عفریت کی شکل دھار گئے۔ اسی عرصے میں طرز حکومت میں بدعنوانی، برے رویے، بری روایات تیزی سے پروان چڑھتی رہیں اور ہر شعبے میں سرایت کر گئیں۔ ریاست کا ہر ادارہ اس دلدل میں پھنس گیا۔‘‘

جسٹس باقر نے اپنے فیصلے کے ذریعے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھی بظاہر ''وعدہ معاف گواہ‘‘ بنانے کی کوشش کی اور ان کی الوداعی ریفرنس والی تقریر کا حوالہ دیا۔ عدالتی فیصلوں کی پردہ سکرین پر پانامہ کیس کی فلم میں گاڈ فادر کے کردار کو متعارف کروا کر مذکورہ متنازعہ احتساب کی بنیاد رکھنے والے بھی خود جسٹس کھوسہ ہی تھے۔ جسٹس باقر نے گاڈ فادر کے ڈائیلاگ سے شروع ہونے والی احتساب کی اس فلم کو بظاہر تو فلاپ قرار دے دیا مگر جسٹس کھوسہ کے ریٹائرمنٹ سے پہلے پڑھے گئے ''کلمہ حق‘‘ کو ان کے آخری وقت میں مسلمان ہو کر جانے کا تاثر بھی دیا۔ جسٹس کھوسہ گاڈ فادر اور ''نکے دے فادر‘‘ کی ایکسٹینشن والی اپنی آخری دو فلموں کے بعد الوداعی ریفرنس میں یہ کہہ کر غائب ہو گئے تھے کہ ''ہم بطور ریاست کے ایک ستون محسوس کرتے ہیں کہ یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ ملک میں جاری احتساب کا عمل الٹا سیدھا ہے اور اسے سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک تاثر ہے جس کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو احتسابی عمل کی ساکھ ختم ہو جائے گی۔‘‘

یہ تقریر کر کے جسٹس کھوسہ نجانے کہاں غائب ہو گئے اور ایسے سنگین دعوے کے ثبوت بھی نہ دیے۔ بحرحال جسٹس باقر مذکورہ تقریر کا حوالہ دے کر بیچ چوراہے میں نیب کے احتساب کا آخری ''کچھا‘‘ ان الفاظ میں اتارتے ہیں: ''اس زور زبردستی اور انسانیت کی تذلیل کی وجہ سے ہی نیب کا ادارہ بین الاقوامی سطح پر بھی بدنامی اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے تازہ جائزے میں نیب کی سیاسی جانبداری کو اجاگر کرتے ہوئے حکومت سے اسکو خود مختار بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘ المیہ یہ ہے کہ نیب پہلے کونسا حکومت کے ماتحت تھا، ہماری سادہ لوح عدلیہ اور ان یورپی ماہرین کو شاید پتہ نہیں کہ یہاں حکومت کون ہے، مطالبہ اور فیصلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ہماری حکومت کو اختیار دیا جائے۔ جسٹس باقر کے مطابق کمیشن نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان میں آزادیوں کی صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے اور خدشات ہیں کہ نیب اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ جسٹس باقر آگے جا کر لکھتے ہیں کہ یہ ''ریاست‘‘ کی ذمہ داری ہے کہ مختلف خیالات کے اظہار کے لیے سازگار ماحول بنایا جائے جہاں ہر شخص کے جان اور مال کو تحفظ حاصل ہو۔

جسٹس باقر لکھتے ہیں، ''آئین میں درج انسان کی عزت و وقار کے احترام کا بنیادی حق کسی صورت پامال نہیں کیا جا سکتا اور الزام لگا کر لوگوں کو گرفتار کرنے سے معاشرے میں ان کی اور ان کے اہل خانہ کی تذلیل ہوتی ہے جنھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جدید میڈیا کے اس دور میں گرفتاری کے بعد سرگوشیوں اور پراپیگنڈا سے ملزم کی کردار کشی کی جاتی ہے جو ذہنی اور نفسیاتی اذیت ہے۔ جسٹس باقر نے کہا کہ ہائی کورٹس کو بھی ضمانتوں کے معاملے پر لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جب کسی شہری کی آزادی سلب کی جائے تو ہائی کورٹس کو درگزر نہیں کرنا چاہیے اور ان شہریوں سے منہ نہیں پھیر لینا چاہیے۔‘‘

جسٹس باقر کے مطابق ہماری قوم کی نجات مخالف خیالات کو دبانا نہیں بلکہ ایسے خیالات کے حامل لوگوں کے لیے سوچ، ضمیر اور اظہار کی آزادی کا مطالبہ کرنا ہے جس کے بغیر امن ممکن نہیں۔ جسٹس باقر نے انقلابی شاعر حبیب جالب کا یہ شعر لکھا:

ظلم رہے اور امن بھی ہو

کیا ممکن ہے تم ہی کہو


یہ سب کچھ کوئی غدار صحافی یا تجزیہ کار نہیں کہہ رہا بلکہ سپریم کورٹ کا ایک معزز جج اپنے تفصیلی تحریری فیصلے میں کہہ رہا ہے۔ تو پھر اس فیصلے کی روح سے جولائی 2018ء سے آج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس تک جو کچھ ہوا کیا وہ اپنوں کی طرف سے قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف نہیں تھا؟ کیا جسٹس مظہر عالم جسٹس عیسٰی کیس کے تفصیلی فیصلے میں بھی مذکورہ حالات و واقعات کا اسی شد ومد سے ذکر کریں گے؟ آج خواجہ برادران تو سرخرو ہو گئے مگر کل ’’قاضی برادران‘‘ بھی سرخرو ہوں گے؟


جان سٹوئرٹ مِل شاید یہ کہنا چاہتا تھا:

اپنوں ہی کے بوٹوں تلے روندے ہوئے یہ لوگ

دشمن سے بھلا کیونکر بے خوف لڑیں گے

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں