1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’منموہن سنگھ، بے اختیار وزیر اعظم‘، نئی کتاب

امجد علی12 اپریل 2014

بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ایک قریبی ساتھی سنجایا بارُو نے اپنی ایک تازہ کتاب میں اُنہیں ایک بے اختیار سیاسی کٹھ پتلی قرار دیا ہے۔ ملک بھر میں جاری سخت انتخابی معرکے میں اس کتاب نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔

اکیاسی سالہ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ ان دنوں بھارت میں جاری انتخابات کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے
اکیاسی سالہ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ ان دنوں بھارت میں جاری انتخابات کے بعد ریٹائر ہو جائیں گےتصویر: Raveendran/AFP/Getty Images

جمعہ گیارہ اپریل سے بھارت کے تمام بُک اسٹورز پر دستیاب اس کتاب کو ’دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر، دی میکنگ اینڈ اَن میکنگ آف منموہن سنگھ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مصنف سنجایا بارُو ایک صحافی ہیں اور منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں۔ بارُو 2008ء میں اس عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس کتاب نے اپوزیشن کے اُن ناقدین کو تازہ مواد فراہم کر دیا ہے، جو سات اپریل تا بارہ مئی منعقد ہونے والے عام انتخابات کے دوران پہلے ہی موجودہ وزیر اعظم اور اُن کی جماعت کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔

اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ منموہن سنگھ وزراتِ عظمیٰ پر تو ضرور فائز تھے مگر صحیح معنوں میں ’برسرِ اقتدار نہیں‘ تھے اور یہ کہ پیچھے سے ہر طرح کے فیصلوں کی ڈور کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کے ہی ہاتھوں میں رہی۔

اس کتاب کے مطابق کاگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے منموہن سنگھ کا انتخاب خود کیا تھاتصویر: dapd

روایتی طور پر حکمران جماعت کا صدر ہی ملک کا وزیر اعظم بھی ہوا کرتا ہے تاہم 2004ء اور پھر 2009ء میں بھی کانگریس پارٹی کو انتخابی کامیابیاں دلوانے والی سونیا گاندھی نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب قبول نہیں کیا تھا۔ اُنہیں ڈر تھا کہ اُن کا اطالوی نژاد ہونا آگے چل کر ایک دھماکہ خیز سیاسی تنازعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے کیونکہ ہندو قوم پرست مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ غیر ملکی جڑیں رکھنے کی بناء پر وہ بھارت پر حکمرانی کے لیے غیر موزوں ہیں۔

ان حالات میں سونیا گاندھی نے اس منصب کے لیے منموہن سنگھ کا انتخاب خود کیا تاہم بارُو کہتے ہیں کہ ’اقتدار سے دستبرداری‘ محض ایک ’سیاسی حربہ‘ تھی۔ بارُو کے مطابق منموہن سنگھ نے شروع ہی میں گاندھی کے آگے ’ہتھیار ڈالنے‘ کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس سلسلے میں کتاب میں منموہن سنگھ کے اس بیان کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اُنہیں ’یہ تسلیم کرنا پڑا تھا کہ طاقت کا مرکز و محور پارٹی صدر (گاندھی) ہیں‘۔

ناقدین تو طویل عرصے سے سونیا گاندھی پر یہ الزام عائد کرتے چلے آ رہے ہیں کہ منموہن سنگھ انتظامیہ میں اقتدار کی اصل باگ ڈور اُنہی کے ہاتھوں میں رہی ہے تاہم بارُو کی کتاب کی صورت میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم کے ایک سابقہ قریبی مُشیر نے بھی یہی دعویٰ کر دیا ہے۔

بھارت میں عام انتخابات سات اپریل کو شروع ہوئے تھے اور نو مراحل میں بارہ مئی تک جاری رہیں گے، نتائج کا اعلان سولہ مئی کو ہو گاتصویر: UNI

دھیمے اور نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے منموہن سنگھ پر شدید تنقید کرتے ہوئے بارُو نے لکھا ہے کہ سنگھ نے ’کرپشن اور بدعنوانی سے نظریں بند کیے رکھیں‘ تاکہ اسکینڈلز کی زَد میں آئی ہوئی اپنی حکومت کو ’طول‘ دے سکیں۔ کتاب کے مطابق اکیاسی سالہ سنگھ نے، جو انتخابات کے بعد ریٹائر ہو رہے ہیں، ’عوام کے سامنے تو راست بازی اور ایمانداری کے اعلیٰ ترین معیارات کا دم بھرا‘ تاہم اُنہوں نے ’اپنے وُزراء کے سیاہ کارناموں کی جانب سے آنکھیں بند کیے رکھیں‘۔

بارُو کے مطابق سنگھ نے سوچا تھا کہ وہ اپنے وُزراء کا انتخاب خود کریں گے لیکن ’سونیا نے اُن کی اِس امید پر شروع ہی میں پانی پھیر دیا‘۔ کتاب میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم سنگھ کی کابینہ اُن کے اختیار میں نہیں تھی اور ایک سینیئر بیوروکریٹ پہلے گاندھی سے اُن ’اہم فائلوں کے سلسلے میں ہدایات لیتا تھا، جن پر وزیر اعظم کے دستخط درکار ہوتے تھے‘۔

اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے منموہن سنگھ کے ترجمان پنکھج پچوری نے کہا کہ یہ کتاب محض ’من گھڑت باتوں‘ پر مبنی ہے۔ اُنہوں نے بارُو پر الزام لگایا کہ اُنہوں نے اپنی ’امتیازی پوزیشن‘ اور حیثیت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اُس سے ’کاروباری فائدہ‘ اٹھایا ہے۔

یہ کتاب ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب ملک بھر میں انتخابی عمل جاری ہے۔ نو مراحل میں منعقد ہونے والے یہ انتخابات سات اپریل کو شروع ہوئے تھے اور بارہ مئی کو اپنے اختتام کو پہنچیں گے۔ نتائج کا اعلان سولہ مئی کو ہو گا اور عام خیال یہی ہے کہ اپوزیشن کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یہ انتخابات جیت جائے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں