منکی پاکس: امریکہ نے ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کر دیا
5 اگست 2022
امریکی حکومت کے اس اقدام سے اس بیماری سے لڑنے کے لیے مزید وفاقی فنڈنگ اور اقدامات کا بند و بست ہو سکے گا۔ عالمی ادارہ صحت نے پہلے اسی طرح کا اعلان کیا تھا اور اب امریکی انتظامیہ نے بھی اسے ایمرجنسی قرار دے دیا ہے۔
اشتہار
امریکہ میں صحت اور انسانی خدمات کے وزیر زیویئر بیسرا نے اعلان کیا کہ حکومت نے منکی پاکس کے پھیلاؤ کو صحت عامہ کی ایمرجنسی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس سے نمٹنے کی تیاریوں پر خصوصی توجہ دینے پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا، ''ہم اس وائرس سے نمٹنے کے لیے اپنے رد عمل کو اگلے سطح تک لے جانے کے لیے تیار ہیں، اور ہم ہر امریکی پر زور دیتے ہیں کہ وہ منکی پاکس کو سنجیدگی سے لے اور اس وائرس سے نمٹنے میں ہماری مدد کرنے کے لیے ذمہ داری بھی قبول کرے۔''
ایمرجنسی قرار دینے سے اس بیماری سے لڑنے کے لیے جہاں مزید وفاقی فنڈنگ کا بند و بست ہوجاتا ہے، وہیں اضافی اقدامات کرنے کی سہولیات بھی مل جاتی ہیں۔
سب سے پہلے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے منکی پاکس کو ایمرجنسی قرار دیا تھا اس کے بعد امریکہ نے ملکی سطح پر اس کا اعلان کیا ہے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا، الینوائے اور نیویارک پہلے ہی اپنی ریاستوں میں منکی پاکس کو صحت عامہ کی ایمرجنسی قرار دے چکے تھے۔
اشتہار
ڈیموکریٹس کا بائیڈن پر وبا کو قابو کرنے پر زور
امریکہ میں منکی پاکس کی وبا سے اب تک چھ ہزار سے بھی زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہے۔ امریکی کانگریس میں حکمراں ڈیموکریٹس نے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پر اس بات کے لیے نکتہ چینی کی ہے کہ انہوں نے اس وباء پر قابو پانے کے لیے تیزی سے اقدامات نہیں کیے۔
ان کے مطابق اس وبا کے لیے جتنی مقدار میں ویکسین کی مانگ ہے سپلائی اس سے کہیں کم ہے اور یہ انتظامیہ کی ناکامی ہے۔
نیو یارک کے ڈیموکریٹک سینیٹر کرسٹن گلیبرانڈ نے بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ موجودہ صورت حال میں ویکسین کی فراہمی کو بڑھانے کے لیے ڈیفنس پروڈکشن ایکٹ (ڈی پی اے) کا استعمال کرے۔
ڈی پی اے ایکٹ صدر کو اس بات کے اختیارات فراہم کرتا ہے کہ وہ نجی فرموں کو بھی وفاقی حکومت کے احکامات کو ترجیح دینے پر مجبور کر سکیں۔ امریکہ نے اب تک تقریباً چھ لاکھ ویکسین تقسیم کی ہیں۔ تاہم اس وائرس سے تقریباً سولہ لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ لاحق ہے اور اس تعداد کو پیش نظر ویکسین کی یہ تعداد بہت کم ہے۔
منکی پاکس کی عام علامات میں سر درد، بخار اور سردی لگنا شامل ہیں۔ امریکہ میں زیادہ تر کیس ایسے مردوں میں پائے گئے ہیں جو دیگرمردوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھتے ہیں۔
منکی پاکس سے متاثرہ شخض کی موت شاذ و نادر ہی ہوتی ہے، تاہم بھارت سمیت بعض ممالک میں اس سے متاثرہ افراد کی موت کی اطلاعات ہیں۔
یہ بیماری قریبی جسمانی رابطے سے پھیلتی ہے۔ اب تک اس بیماری سے زیادہ تر وہ مرد متاثر پائے گئے ہیں، جو ہم جنس پرست ہیں۔ تاہم ماہرین صحت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کوئی بھی اس کے وائرس کا شکار ہو سکتا ہے اور یہ تولیہ اور بستر کے اشتراک کے ساتھ ہی جلد سے جلد کے طویل رابطے کے ذریعے پھیلتا ہے۔
بخار، پٹھوں میں درد اور چھالے بننے والے دانے سمیت بعض دیگر چیزیں منکی پاکس کی اہم علامات ہیں، جن کی عام طور پر چیچک سے شدت کم ہوتی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)
جرمنی، کورونا وباء پالتو جانوروں کے لیے نعمت
کورونا وباء میں جرمن باشندوں نے مزید دس لاکھ پالتو جانور خریدے ہیں اور اس طرح اس ملک میں پالتو جانوروں کی مجموعی تعداد تقریباً 35 ملین ہو چکی ہے۔ پالتو جانوروں کا کاروبار کرنے والوں کو پانچ ارب یورو کا فائدہ ہوا ہے۔
تصویر: Fabrice Coffrini/Getty Images/AFP
بڑی آنکھیں، زیادہ فروخت
گزشتہ برس ’برِک اینڈ مارٹر ریٹیلرز‘ نے ساڑھے چار ارب یورو سے زائد کا سامان فروخت کیا۔ ان میں پالتو جانور، ان کی خوراک کھلونے اور بستر وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح وباء کے دوران جنگلی پرندوں کی خوراک کو بھی شامل کیا جائے تو یہ ساڑھے پانچ ارب یورو بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Murat
ہر موسم میں دوست
کتے انسان کے بہترین دوست ہوتے ہیں اور ان کا جرمنی میں کثرت سے پایا جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران اس جانور کی قیمت اور فروخت میں واضح اضافہ ہوا ہے اور جرمنی میں پالتو کتوں کی تعداد تقریباً دس ملین تک پہنچ گئی ہے۔ وباء کے دوران کتے پرُ تعیش مشغلہ ہی نہیں بلکہ بہت سے انسانوں کی تنہائی کے ساتھی بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/J. de Cuveland
بلیاں سرفہرست ہیں
لیکن جرمنی میں بلیاں ’بادشاہ‘ ہیں۔ جرمنی میں اس وقت 15.7 ملین پالتو بلیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ پالتو جانوروں کی مجموعی تعداد کا ایک تہائی بنتی ہیں۔ بلیوں کی دیکھ بھال دیگر جانوروں کی نسبت آسان تصور کی جاتی ہے۔ وباء کے دوران بلیوں کے دودھ اور سنیکس کی خریداری میں قریب ساڑھے نو فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
گزشتہ ایک برس کے دوران جرمنی میں تقریباً دس لاکھ نئے پالتو جانور خریدے گئے ہیں۔ اب تقریبا سینتالیس فیصد جرمن گھرانوں میں کوئی نہ کوئی پالتو جانور موجود ہے۔ ان میں تقریباً پانچ ملین خرگوش، ہیمسٹرز اور چوہوں جیسے چھوٹے جانور شامل ہیں۔ پرندوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے جبکہ اٹھارہ لاکھ ایکویریم ہیں۔ کچھوؤں اور چھپکلیوں وغیرہ کی تعداد تیرہ لاکھ ہے۔
جرمن بھی جانوروں سے محبت کرتے ہیں لیکن سن 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق پالتو جانوروں کی خریداری میں سوئٹزرلینڈ، فرانس اور برطانیہ جرمنی سے بھی آگے ہیں۔ سرفہرست امریکا ہے، جہاں جرمن باشندوں کی نسبت پالتو جانوروں پر دگنی رقم خرچ کی جاتی ہے۔
تصویر: Fotolia/quipu
سفر اور مہنگے ترین برانڈ
جانوروں کے لیے عام مصنوعات کو بھول جائیے۔ پالتو جانوروں کے امیر مالکان ٹیفنی اور پراڈا جیسے برانڈز کے بیگ خریدتے ہیں۔ جانوروں کے لیے ورساچے کے فوڈ باؤلز، رالف لورن کے سویٹر اور مونکلر کی جیکٹیں خریدی جاتی ہیں۔ انسٹاگرام کی تصاویر کے لیے پالتو جانوروں کو پہنائے جانے والے مہنگے لباس ان کے علاوہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Lipinski
ہوم آفس اور آن لائن شاپنگ
بہت سے ملازمین گھروں میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔ پالتو جانوروں کے لیے تو یہ اچھی بات ہے لیکن ڈے کیئر بزنس کے لیے ایک بری خبر۔ لیکن مجموعی طور پر پالتو جانوروں کے لیے آن لائن خریداری میں اضافہ ہوا ہے۔ اس مد میں سولہ فیصد اضافے کے ساتھ گزشتہ ایک برس کے دوران 820 یورو خرچ کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
لاک ڈاؤن کے دوست لیکن خدشات
کئی پالتو جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اسی وجہ سے خوف پایا جاتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد ان کی چوریاں اور اسمگلنگ شروع کر دیں گے۔ یہ خوف بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد بہت سے لوگوں کو ان پالتو جانوروں کی ضرورت نہیں رہے گی اور شیلٹر ہاؤسز کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔