منکی پاکس: کیلیفورنیا میں بھی ہنگامی حالت کا اعلان
2 اگست 2022
امریکی ریاست نیویارک کے بعد کیلیفورنیا نے بھی منکی پاکس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے۔ حکام کو امید ہے کہ اس سے بیماری کے پھیلاؤ سے نمٹنے کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔
اشتہار
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے پیر کے روز منکی پاکس کی بیماری پھیلنے کے حوالے سے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ چند روز قبل سب سے پہلے نیویارک نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا اور اب ایسا کرنے والی کیلیفورنیا امریکہ کی دوسری ریاست بن گئی ہے۔
بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز کے مطابق یکم اگست پیر تک کیلیفورنیا میں منکی پاکس کے 827 انفیکشن درج کیے گئے، جو نیویارک میں 1,390 کیسز کے بعد امریکہ میں دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔
اشتہار
ایمرجنسی کے اعلان کا کیا مطلب ہے؟
ریاست کے گورنر گیون نیوزوم نے کہا کہ ایمرجنسی کے اعلان سے ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کو مزید ویکسین جمع کرنے اور بیماری نیز اس کے علاج کے بارے میں مزید معلومات کی تشہیر کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے اس کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا، ''ہم مزید ویکسینز کو محفوظ بنانے، خطرے کو کم کرنے کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور بدنامی کے خلاف لڑنے والی ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر اپنا کام جاری رکھیں گے۔''
ایمرجنسی کا اعلان ہنگامی طبی عملے کو منکی پاکس کے ایسے ویکسین لگانے کی اجازت دیتا ہے جو وفاقی حکومت سے منظور شدہ ہوں۔ اس حوالے سے ایک حالیہ قانون کے تحت فارماسسٹ کو بھی اس کے ویکسین کا انتظام کرنے کی اجازت ہے۔
ریاست کیلیفورنیا میں اب تک منکی پاکس کی روک تھام کے لیے تقریباً 25,000 خوراکیں دی جا چکی ہیں۔ گورنر کے دفتر نے ایک بیان
میں کہا کہ اس کے لیے ریاست میں ویکسینیشن کلینک قائم کرنے کے لیے انہیں اقدامات پر تیاری چل رہی جس طرز پر کووڈ 19 کی وبا کے دوران تیاریاں کی گئی تھیں۔
عالمی سطح پر ایمرجنسی
گزشتہ ماہ 23 جولائی کو عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے منکی پاکس کو عالمی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا تھا۔ عالمی ادارہ جب کسی بھی وبا یا بیماری کو ایمرجنسی قرار دیتا ہے تو اس کا مطلب اس بیماری سے متعلق اعلیٰ ترین الرٹ ہوتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے مئی کے آغاز سے اب تک تقریباً 78 ممالک میں 20,000 سے زیادہ منکی پاکس کے کیسز رپورٹ کیے ہیں۔ یہ بیماری کئی دہائیوں سے افریقہ کے بعض حصوں میں پائی جاتی تھی، لیکن حال ہی میں یورپ اور شمالی امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گئی ہے۔
منکی پوکس سے متاثرہ شخض کی موت شاذ و نادر ہی ہوتی ہے، تاہم بھارت اور پیرو نے پیر یکم اگست کو اس سے متاثرہ دو افراد کی موت کی اطلاع دی۔ گزشتہ ہفتے اسپین میں بھی اس سے دو اموات کی اطلاع ملی تھی، جبکہ اس سے بھی قبل برازیل میں بھی ایک موت ریکارڈ کی گئی تھی۔
یہ بیماری قریبی جسمانی رابطے سے پھیلتی ہے۔ اب تک اس بیماری سے زیادہ تر وہ مرد متاثر پائے گئے ہیں، جو مردوں کے ساتھ ہی جنسی تعلق رکھتے ہیں، یعنی ہم جنس پرستوں میں۔ تاہم ماہرین صحت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کوئی بھی اس کے وائرس کا شکار ہو سکتا ہے اور یہ تولیہ اور بستر کے اشتراک کے ساتھ ہی جلد سے جلد کے طویل رابطے کے ذریعے پھیلتا ہے۔
اس وبا کی وجہ سے ایل جی بی ٹی کیو کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے حکام کو بحران سے نمٹنے اور عوام کو آگاہ کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنے کو کہا ہے۔
بخار، پٹھوں میں درد اور چھالے بننے والے دانے سمیت بعض دیگر چیزیں منکی پاکس کی اہم علامات ہیں، جن کی عام طور پر چیچک سے شدت کم ہوتی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
جرمنی، کورونا وباء پالتو جانوروں کے لیے نعمت
کورونا وباء میں جرمن باشندوں نے مزید دس لاکھ پالتو جانور خریدے ہیں اور اس طرح اس ملک میں پالتو جانوروں کی مجموعی تعداد تقریباً 35 ملین ہو چکی ہے۔ پالتو جانوروں کا کاروبار کرنے والوں کو پانچ ارب یورو کا فائدہ ہوا ہے۔
تصویر: Fabrice Coffrini/Getty Images/AFP
بڑی آنکھیں، زیادہ فروخت
گزشتہ برس ’برِک اینڈ مارٹر ریٹیلرز‘ نے ساڑھے چار ارب یورو سے زائد کا سامان فروخت کیا۔ ان میں پالتو جانور، ان کی خوراک کھلونے اور بستر وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح وباء کے دوران جنگلی پرندوں کی خوراک کو بھی شامل کیا جائے تو یہ ساڑھے پانچ ارب یورو بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Murat
ہر موسم میں دوست
کتے انسان کے بہترین دوست ہوتے ہیں اور ان کا جرمنی میں کثرت سے پایا جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران اس جانور کی قیمت اور فروخت میں واضح اضافہ ہوا ہے اور جرمنی میں پالتو کتوں کی تعداد تقریباً دس ملین تک پہنچ گئی ہے۔ وباء کے دوران کتے پرُ تعیش مشغلہ ہی نہیں بلکہ بہت سے انسانوں کی تنہائی کے ساتھی بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/J. de Cuveland
بلیاں سرفہرست ہیں
لیکن جرمنی میں بلیاں ’بادشاہ‘ ہیں۔ جرمنی میں اس وقت 15.7 ملین پالتو بلیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ پالتو جانوروں کی مجموعی تعداد کا ایک تہائی بنتی ہیں۔ بلیوں کی دیکھ بھال دیگر جانوروں کی نسبت آسان تصور کی جاتی ہے۔ وباء کے دوران بلیوں کے دودھ اور سنیکس کی خریداری میں قریب ساڑھے نو فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
گزشتہ ایک برس کے دوران جرمنی میں تقریباً دس لاکھ نئے پالتو جانور خریدے گئے ہیں۔ اب تقریبا سینتالیس فیصد جرمن گھرانوں میں کوئی نہ کوئی پالتو جانور موجود ہے۔ ان میں تقریباً پانچ ملین خرگوش، ہیمسٹرز اور چوہوں جیسے چھوٹے جانور شامل ہیں۔ پرندوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے جبکہ اٹھارہ لاکھ ایکویریم ہیں۔ کچھوؤں اور چھپکلیوں وغیرہ کی تعداد تیرہ لاکھ ہے۔
جرمن بھی جانوروں سے محبت کرتے ہیں لیکن سن 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق پالتو جانوروں کی خریداری میں سوئٹزرلینڈ، فرانس اور برطانیہ جرمنی سے بھی آگے ہیں۔ سرفہرست امریکا ہے، جہاں جرمن باشندوں کی نسبت پالتو جانوروں پر دگنی رقم خرچ کی جاتی ہے۔
تصویر: Fotolia/quipu
سفر اور مہنگے ترین برانڈ
جانوروں کے لیے عام مصنوعات کو بھول جائیے۔ پالتو جانوروں کے امیر مالکان ٹیفنی اور پراڈا جیسے برانڈز کے بیگ خریدتے ہیں۔ جانوروں کے لیے ورساچے کے فوڈ باؤلز، رالف لورن کے سویٹر اور مونکلر کی جیکٹیں خریدی جاتی ہیں۔ انسٹاگرام کی تصاویر کے لیے پالتو جانوروں کو پہنائے جانے والے مہنگے لباس ان کے علاوہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Lipinski
ہوم آفس اور آن لائن شاپنگ
بہت سے ملازمین گھروں میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔ پالتو جانوروں کے لیے تو یہ اچھی بات ہے لیکن ڈے کیئر بزنس کے لیے ایک بری خبر۔ لیکن مجموعی طور پر پالتو جانوروں کے لیے آن لائن خریداری میں اضافہ ہوا ہے۔ اس مد میں سولہ فیصد اضافے کے ساتھ گزشتہ ایک برس کے دوران 820 یورو خرچ کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
لاک ڈاؤن کے دوست لیکن خدشات
کئی پالتو جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اسی وجہ سے خوف پایا جاتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد ان کی چوریاں اور اسمگلنگ شروع کر دیں گے۔ یہ خوف بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد بہت سے لوگوں کو ان پالتو جانوروں کی ضرورت نہیں رہے گی اور شیلٹر ہاؤسز کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔