1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منگھو پیر: زبوں حالی کی منہ بولتی داستان

2 فروری 2012

کراچی کے نواح میں واقع اس تاریخی جگہ کے حوالے سے جہاں کئی قصّے مشہور ہیں، وہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ منگھو پیر کی حالت حکومتی لاپروائی کی وجہ سے انتہائی ابتر ہو چکی ہے۔

مگر مچھوں کی واحد نسل ہے جو میٹھا کھاتی ہیںتصویر: DW

خلیفہ سجاد کو منگھو پیر کے مگر مچھوں کی خدمت کرتے ہوئے اب 25سال ہو چکے ہیں۔ محکمہِ اوقاف کی طرف سے یہ ذمہ داری اس سے پہلے ان کے والد خلیفہ خیر محمد کے پاس تھی۔ یوں اس جدی پشتی ذمہ داری کو اب اس خاندان کی ساتویں نسل نباہ رہی ہے۔ مگر محکمہ کی طرف سے اس اہم ذمہ داری کے لیے ایک شخص کی تعیناتی کے علاوہ اگر کچھ اور کام بھی کیا جاتا ہے تو منگھو پیر کے تالابوں پر وہ کام نظر نہیں آتا۔ لگ بھگ 50کے قریب مگر مچھ نہایت گندے پانی کے ایک تالاب میں بند ہیں جو کسی طور بھی درجن بھر سے زیادہ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

روایت یہ بھی ہے کہ منگھو پیر میں ابلتے ہوئے گرم پانی کے چشمے ہر قسم کی بیماری کا علاج ہیںتصویر: DW

روایت ہے کہ یہ مشہور صوفی بزرگ بابا غلام فرید کے سر کی جوئیں تھیں جوانہوں نے سر سے جھاڑیں تو چار تالاب میں گر گئیں اور مگر مچھ بن گئیں۔ سات سو سال بعد بھی ان مگر مچھوں کی نسل یہاں پائی جاتی ہے۔ ان میں سے سب سے عمر رسیدہ مگرمچھ "مور ثواب" لگ بھگ 115سال کا ہے۔ افریقی نسل کے شیدی اس مگر مچھ کے اعزاز میں ہر سال مئی کے مہینے میں ایک رنگا رنگ میلہ کرتے ہیں۔ اس شیدی میلے میں شرکت کرنے کے لیے ہزاروں کلومیٹر سے لوگ آتے ہیں اور مگر مچھوں کو گوشت اور حلوہ کھلاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ مگر مچھوں کی واحد نسل ہے جو میٹھا کھاتی ہیں۔

منگھو پیر کے مزار کے اطراف میں روایتوں کی کمی نہیں۔ مزار حضرت خواجہ حسن کمال الدین عرف منگھو پیر سخی سلطان کا ہے ۔ ان کے ماننے والے کہتے ہیں کہ یہاں حاضری دینے سے ان کی مرادیں ضرور پوری ہوتی ہیں۔ مزار کے اطراف میں کچھ ایسی قبریں بھی ہیں جن کے بارے میں روایت ہے کہ یہ ان بہادروں کی ہیں جو منگھوپیر کے ساتھیوں میں سے تھے۔کبھی یہ قبریں شاندار رہی ہوں گی مگر آج کل ان کی حالت خاصی خراب ہے۔

مگر مچھوں کا تالاب، منگھوپیر کا مزار، اور اطراف کی قبریں یہ سب زبوں حالی کا قصہ ہیںتصویر: DW

روایت یہ بھی ہے کہ منگھو پیر میں ابلتے ہوئے گرم پانی کے چشمے ہر قسم کی بیماری کا علاج ہیں۔ لوگ دور دور سے آکر یہاں نہاتے ہیں، اس پانی کو پیتے ہیں، اور یقین کر لیتے ہیں کہ اس سے ان کی کئی بلائیں ٹل گئیں۔ ان لوگوں میں جذام کے مریض بھی شامل ہیں جو افغانستان تک سے یہاں آتے ہیں۔ اسی لئے سن ساٹھ کی دہائی میں جرمن خاتون ڈاکٹر رود فا نے اپنے میری اڈیلیڈ لیپرسی سینٹر کی ایک شاخ یہاں بھی کھولی۔ آج تک یہ مرکز لاکھوں مریضوں کا علاج کر چکا ہے۔

مگر یہاں گزشتہ پچاس سال سے کام کرنے والی بیلجیم کی سسٹر جنین کا کہنا ہے کہ علاج میں یہ گرم پانی کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتا، علاج تو دواﺅں سے ہوتاہے۔

گرم پانی کے یہ چشمے، مگر مچھوں کا تالاب، منگھوپیر کا مزار، اور اطراف کی قبریں یہ سب زبوں حالی کا قصہ بتاتی ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے گزر کر اگر ترقی محض ایک کلومیٹر دوری پر نئے رہائشی منصوبوں کی صورت میں پہنچ بھی گئی ہے تو بھی یہ فاصلہ بہت نظر آتا ہے۔ بلاشبہ، اس علاقے کی غربت صرف لوگوں تک محدود نہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: شامل شمس

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں