منی لانڈرنگ: الطاف خانانی سے متعلق پاک بھارت تکرار کیوں؟
22 اکتوبر 2020
بدنامِ زمانہ منی لانڈرر الطاف خانانی گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب افراد میں شامل ہے، تاہم اس کے باوجود اس نے القاعدہ جیسے گروہوں کے ساتھ کاروباری تعلقات قائم رکھے۔
اشتہار
پاکستان اور بھارت کے درمیان الطاف خانانی ایک تکرار کا نکتہ بنا ہوا ہے۔ اسلام آباد حکومت کی پاکستان کو دہشت گردی کی مالی اعانت کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکلوانے کی کوششوں کو خانانی کی وجہ سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
الطاف خانانی کو دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب منی لانڈررز میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ یہ پاکستانی فراڈیا پاکستان، متحدہ عرب امارات، امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں رقوم کی غیرقانونی ترسیل میں ملوث رہا ہے۔ منشیات کے دھندے میں ملوث افراد کے علاوہ خانانی حزب اللہ اور القاعدہ جیسے دہشت گرد عسکری گروہوں کے لیے بھی پیسہ ترسیل کرتا رہا ہے۔
پانچ ممالک کی ایک وسیع تر کارروائی کے نتیجے میں خانانی کو ستمبر 2015 میں امریکا کے محکمہ برائے انسدادِ منشیات نے پاناما سے گرفتار کیا تھا۔ اسے 68 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تیرہ جولائی کو اسے جیل سے رہائی ملی اور اس کے بعد سے یہ معلوم نہیں کہ وہ اب کہاں ہے۔
ایک پاکستانی وزارتی عہدیدار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ خانانی نیٹ ورک اب فعال نہیں ہے۔ خانانی اینڈ کالیا انٹرنیشنل نامی اس گروپ پر پاکستانی حکومت نے پابندی عائد کر دی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد حکومت کے اقدامات کے باوجود خانانی اب بھی اپنے آبائی ملک کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ممکن ہے کہ وہ اب بھی پاکستان کو اپنی گرے لسٹ ہی میں رکھے کیوں کہ اب بھی پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کے تفویض کردہ اقدامات کی پاسداری نہیں کی جا رہی اور اب بھی اپنی سرزمین سے سرمائے کی دہشت گردی کے لیے ترسیل کے اعتبار سے پاکستان کو مزید اقدامات کرنا ہیں۔
پیرس میں قائم اس بین الاقوامی مالیاتی واچ ڈاگ ادارے کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا۔ 37 رکن ممالک کے ادارے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ اگر پاکستان کو یہ ادارہ بلیک لسٹ کرتا ہے، تو یہ پاکستان کی پہلے سے تباہ حال اقتصادیات کے لیے زہر قاتل ہو گا۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
واضح رہے کہ پاکستان میں حال ہی میں نئے قانونی بل بھی منظور کیے گئے ہیں، تاکہ انہیں اس ادارے میں پیش کر کے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوایا جا سکے۔
تفتیشی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم فِن سین FinCEN نے اس سلسلے میں خانانی نیٹ ورک اور پاکستان کے موضوع پر ایک تحقیق شائع کی ہے۔ چار سو سے زائد صحافیوں نے امریکی محکمہ خزانہ کی خفیہ دستاویزات کی سولہ ماہ تک چھان بین کے بعد بز فیڈ نیوز میں بتایا کہ سن 1999 سے 2017 کے درمیانی عرصے میں لیک ہونے والی دستاویزات کی بنا پر ان صحافیوں نے عالمی بینک کے بے ضابطہ افعال اور منی لانڈرنگ کی سطح کے انکشافات کیے۔
اس تفتشی رپورٹ کے مطابق خانانی اور ان کا ادارہ قریب چودہ ارب تا سولہ ارب ڈالر کے لگ بھگ رقوم القاعدہ، حزب اللہ اور طالبان جیسی تنظیموں کو ترسیل کرنے میں ملوث رہا ہے۔
بھارتی اخبار ایکسپریس کے مطابق خانانی بدنام زمامہ انڈرگراؤنڈ ڈان داؤد ابراہیم کا بھی اہم فناسر رہا ہے۔ خانانی ایک طویل عرصے سے داؤد ابراہیم سے تعلق کے شبے میں بھارتی خفیہ اداروں کے نگاہ میں بھی رہا ہے۔ بھارتی ذرائع کے مطابق داؤد ابراہیم 1993 میں ممبئی میں ہونے والے سلسلہ وار دھماکوں میں بھی ملوث تھا، جن میں 257 افراد ہلاک اور 14 سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
ع ت / م م / ہارون جنجوعہ (اسلام آباد)، دھاروی وید (نئی دہلی)