شمال مشرقی بھارتی ریاست منی پور میں جاری پرتشدد واقعات کے نتیجے میں اب تک 54 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 23 ہزار سے زائد افراد کو اپنا گھربار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔
اشتہار
فوجی بیان کے مطابق گزشتہ شب تشدد کی ایک نئی لہر میں کم از کم 54 افراد ہلاک ہو گئے۔ منی پور میں تشدد کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب گزشتہ ہفتے ایک مقامی قبائلی گروپ نے احتجاجی مارچ کیا تھا اور متعدد گھروں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی۔ اس کے جواب میں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا تھا۔
حالات کی سنگینی کے پیش نظر حکومت نے میانمار کی سرحد پر واقع اس ریاست میں فوج تعینات کر دی تھی اور 'شدید حالات‘ میں فوج کو 'گولی مار دینے‘ کے اختیارات بھی دے دیے گئے تھے اور کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
فوجی نے اتوار کے روز بتایا تھا کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں اور تشدد سے سب سے زیادہ متاثرہ ضلعے چراچند پور میں نافذ کرفیو میں سات سے دس بجے کے درمیان نرمی بھی کی گئی تھی۔ فوجی بیان کے مطابق، ''گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران فوج نے فضائی نگرانی میں بھی نمایاں اضافہ کیا ہے جب کہ علاقے میں گشت کے ساتھ ساتھ فوجی ہیلی کاپٹروں کے پروازیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔‘‘
فوجی بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''مجموعی طور پر اب تک تئیس ہزار افراد ریسکیو کیے جا چکے ہیں، جنہیں مختلف فوجی چھاؤنیوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ‘‘
حکام نے اب تک مجموعی ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق تو نہیں کی ہے، مگر ریاستی دارالحکومت امپھال اور چراچندپور کے مردہ خانوں نے اب تک 54 ہلاکتوں کا بتایا ہے۔
جانیے منی پور کے بارے میں
بھارتی ریاست منی پور کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے لندن میں ایک جلا وطن حکومت قائم کر دی ہے۔ اس پکچر گیلری میں جانیے کچھ تفصیل منی پور کے بارے میں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/A. Owen
منی پور کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات
منی پور بھارت کی جنوب مشرقی ریاست ہے۔ یہ بھارت کی چھوٹی ترین ریاستوں میں شامل ہے اور اس کا رقبہ قریب 22 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی آبادی 30 لاکھ کے قریب ہے۔ اس کی سرکاری زبان مئیتئی (منی پوری) اور انگریزی ہے۔ کل آبادی کا 40 فیصد ہندو ہے اور قریب اتنے ہی مسیحیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی شرح 10 فیصد کے قریب ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/D. Talukdar
منی پور کی ثقافت
جنوبی ایشیا کے ثقافتی منظر نامے پر منی پور کا سب سے بڑا حصہ منی پوری رقص ہے جو بھارت بھر میں سب سے زیادہ معروف کلاسیکل ڈانس ہے۔ اس کے علاوہ مارشل آرٹس اور فوک کہانیوں پر مشتمل اسٹیج بھی منی پور میں انتہائی معروف ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kumar
منی پور کی تاریخ پر ایک نظر
منی پور قریب تین ہزار برس سے مقامی مئیتئی قبائل کی ملکیت چلا آ رہا تھا۔ برصغیر میں برطانیہ کی آمد کے بعد 1824ء میں منی پور کے حکمران نے انگریز سرکار سے اتحاد کر لیا تاہم اس ریاست نے بطور نوابی ریاست اپنی شناخت برقرار رکھی۔
تصویر: imago/Zumapress
برصغیر کی تقسیم اور منی پور
برصغیر کی تقسیم کے دو برس بعد یعنی 1949ء میں منی پور نے بھارت میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اسے 1972 میں مکمل ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/D. Talukdar
منی پور میں آزادی کی تحریکیں
منی پور میں بھارت سے علیحدگی کی تحریکوں کا آغاز 1960ء کی دہائی سے ہو گیا تھا۔ یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ کی بنیاد 1964ء میں رکھی گئی۔ یہ تنظیم منی پور کی بھارت سے علیحدگی اور ایک آزاد ریاست بنائے جانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے بعد وقتاﹰ فوقتاﹰ وہاں دیگر علیحدگی پسند گروپ بھی تشکیل پائے۔
تصویر: Fotoagentur UNI
شمال مشرقی بھارت اور منی پور
منی پور ریاست ’سیون سسٹرز‘ کے نام سے جانے والی ریاستوں کے اس گروپ میں شامل ہے جو ملک کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہیں اور وہاں بھارت سے علیحدگی کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ یہ علاقہ پانچ دیگر ممالک کے درمیان گِھرا ہوا ہے اور بھارت کے بقیہ حصے کے ساتھ ایک ایسے زمینی راستے سے جڑا ہوا ہے جو بنگلہ دیش کے اوپر سے ہو کر گزرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
منی پور کی آزادی کا اعلان
منی پور کے رہنماؤں نے پہلی مرتبہ 2012ء میں بھارت سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم منگل 29 اکتوبر کو لندن میں منی پور کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے جلا وطن حکومت ’منی پور اسٹیٹ کونسل‘ قائم کر دی۔ اس حکومت کے وزیر برائے خارجہ امور نارینگبام سمرجیت کے مطابق اب یہ جلاوطن حکومت اقوام متحدہ سے تسلیم کرانے کی کوشش کی جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/A. Owen
7 تصاویر1 | 7
مقامی قبائلی کروپ بہ شمول کُکیس ریاستی اکثریت والی مائی تائی برادری کو 'شیڈیولڈ قبیلہ‘ تسلیم کرنے کے منصوبے پر برہمہے اور یہی معاملہ ریاست بھر میں کشیدگی کا باعث بھی بنا ہے۔ تسلیم کر لیے جانے پر انہیں ریاستی ملازمتوں اور کالج داخلوں میں ایک یقینی کوٹا حاصل ہو سکتا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق بہت سے افراد فسادات کے تناظر میں اپنا گھر بار چھوڑ کر دارالحکومت امپھل کے ہوائی اڈے کے باہر بھی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
بھارت کا شمال مشرقی حصہ ایک طویل عرصے سے تشدد اور بدامنیکا شکار رہا ہے۔ اس علاقے میں خودمختاری اور علیحدگی پسندی کی مسلح تحریکوں کے تناظر میں سن انیس سو پچاس سے اب تک پچاسس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔