دنیا بھر میں جعلی خبروں کے پھیلاؤ میں تیزی آ چکی ہے۔ یورپی بلاک خود بھی جعلی خبروں کے نرغے میں ہے اور یورپی رہنما اس رجحان کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اشتہار
’’حقائق، حقائق ہی ہوتے ہیں‘‘، یہ تو بالکل واضح ہے۔ تاہم اس کے باوجود شہریوں کی جانب سے اس کی تشریح مختلف طرح سے کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذرائع ابلاغ کے آج کل کے حالات میں حقائق بھی متنازعہ ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب لوگ کہتے ہیں کہ سماجی ویب سائٹس ’’معلومات‘‘ کا ذخیرہ ہیں۔ جو لوگ دروغ گوئی کو سچ ثابت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ اپنے غلط بیانات کو نئی حقیقت کے طور پر پیش بھی کر سکتے ہیں۔
اب یورپی یونین بھی اس مسئلے کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہے۔ یورپ روس کو جعلی خبریں پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ سمجھتا ہے اور اسے خطرہ ہے کہ وہ یورپ میں انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ماسکو پر الزام ہے کہ اس نے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے ریفرنڈم اور 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات کو متاثر کیا تھا۔ اس تناظر میں یورپی یونین کے حالیہ سربراہی اجلاس میں کہا گیا تھا، ’’یہ ہمارے جمہوری نظام کے لیے ایک بہت بڑی مشکل ہے۔‘‘
جعلی خبروں سے متعلق سخت قوانین والے ایشائی ممالک
کئی ممالک میں جعلی خبروں یا ’فیک نیوز‘ کی گونج کچھ عرصے سے سنی جارہی ہے۔ ناقدین کے خیال میں اس کا مقصد حکومت مخالف رپورٹوں کو دبانا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ جعلی خبروں سے متعلق ایشیائی ممالک میں کیا کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Gabbert
ملائیشیا
ملائیشیا کے قانون کے مطابق اگر جعلی خبر سے ملائیشیا کے کسی شہری کو نقصان پہنچتا ہے تو اس خبر پھیلانے والے کو 123,000 ڈالر جرمانہ اور چھ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ سزا خبر رساں اداروں، ڈیجیٹل اشاعت اور سوشل میڈیا کے ذریعے خبر پھیلانے والوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Scheiber
بھارت
بھارت میں گزشتہ دنوں وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے ایک اعلان کیا گیا تھا جس کے مطابق ایسے صحافیوں کے، جو حکومت کے خلاف جعلی خبر پھیلانے میں ملوث ہوں یا ان پر شبہ ہو، پریس کارڈ کو منسوخ کرتے ہوئے تحقیقات کی جائیں گی ۔صحافتی حلقوں کی جانب سے اس کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا گیا اور شدید مذمت کی گئی جس کے بعد ملکی وزیر اعظم نریندری مودی کے کہنے پر یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
تصویر: DW/S. Bandopadhyay
سنگا پور
سنگاپور میں ملکی پارلیمانی کمیٹی ’دانستہ طور پر آن لائن جھوٹ پھیلانے‘ کے خلاف اقدامات کرنے پر غور کر رہی ہے۔ آزادی اظہار رائے سے متعلق پہلے سے ہی سخت قوانین کا حامل یہ ملک اب اس حوالے سے مئی کے مہینے میں نئے قوانین معتارف کرائے گا۔
تصویر: picture-alliance/Sergi Reboredo
فلپائن
اس ملک میں غلط معلومات پھیلانے والے کو 20 سال تک قید کی سزا دیے جانے کا نیا قانون متعارف کروانے کے حوالے سے غور کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل فلپائنی صدر ،حکومت مخالف خبر دینے والے اداروں کو بھی جعلی خبر رساں ادارے قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ANN
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں پہلے ہی سائبر سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی سخت قوانین موجود ہیں۔ ان قوانین کے تحت غلط یا جعلی خبر پھیلانے والوں کو سات برس تک کی سزائے قید دی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ ملکی شاہی خاندان کے خلاف ہتک آمیز بیان یا خبر دینے کے خلاف بھی سخت قوانین موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/CPA Media
پاکستان
پاکستان میں ’سائبر کرائم ایکٹ‘ سن 2016 میں منظور کیا گیا جس کے مطابق نفرت انگیز مواد، اسلام یا مذہبی شخصیات کی ہتک پر مبنی مواد، خواتین کے وقار کے منافی مواد کی نشر و اشاعت کے علاوہ دشت گردی یا اس کی سازش پھیلانے والوں کو بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Arbab
6 تصاویر1 | 6
ابھی نومبر میں ہی یورپی یونین کے رکن ملک لتھوینیا کے’Kas Vyksta Kaun‘ نامی ایک میڈیا ہاؤس پر سائبر حملہ کیا گیا تھا۔ تب نامعلوم افراد کی جانب سے اس میڈیا ہاؤس کی ویب سائٹ پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا حوالہ دیتے ہوئے ایک من گھڑت خبر شائع کر دی گئی تھی۔ اس خبر کے مطابق نیٹو بیلا روس پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
فرانس میں بھی ذرائع ابلاغ کے اداروں کو کچھ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے قومی اسمبلی نے ابھی کچھ دن قبل ہی انتخابی مہم کے دوران جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قانونی سازی کی ہے۔ تاہم صحافیوں سمیت دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں نے اس پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’سنیسر شپ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
یورپی یونین کو من گھڑت خبروں کے تباہ کن نتائج کا اندازہ ہو چکا ہے۔ اس سلسلے کو روکنے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔