مواصلاتی رابطے نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں کشمیری ہلاک
8 اکتوبر 2019![Indien Kashmir Protest](https://static.dw.com/image/46754620_800.webp)
اس رپورٹ میں نیو یارک ٹائمز کے نمائندے نے سری نگر کے کئی ڈاکٹروں سے گفتگو کے دوران یہ جاننے کی کوشش کی کہ وادی میں ٹیلی فون اور موبائل سروس کی معطلی کے بعد لوگ طبی امداد تک کیسے رسائی حاصل کر پا رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں ساجا بیگم کی کہانی بیان کی گئی ہے جس کے بائیس سالہ بیٹے کو زہریلے سانپ نے کاٹ لیا لیکن فون کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث وہ ایمبولنس نہ بلا پائی۔ کئی لوگوں سے مدد مانگنے کے بعد وہ بالآخر سری نگر کے ایک ہسپتال پہنچی لیکن اس کا بیٹا جانبر نہ ہوسکا۔ اسی طرح ایک شادی شدہ جوڑا جن کا بچہ پیدا ہونے والا تھا وہ بھی بروقت ایمبولنس نہ بلا پائے اور انتہائی تکلیف میں حاملہ خاتون کو کئی گھنٹے پیدل چلنا پڑا۔ اسکے نتیجے میں اس جوڑے کو اپنا بچہ کھونا پڑا۔
رپورٹ میں ایسے کچھ ڈاکٹرز سے بھی بات چیت کی گئی ہے جنہوں نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ بعض اوقات انہیں ایمرجنسی کیس میں رات کے اندھیرے میں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ہسپتال کے عملے کو گھر سے بلانا پڑا کیوں کہ کسی صورت اس عملے سے رابطہ کرنا ممکن نہیں تھا۔
اس سال پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے وہاں ٹیلی فون، موبائل نیٹ ورک اور ٹی وی کی سہولت بند کر دی گئی ہے۔ مقامی آبادی شدید مشکلات کا شکار ہے لیکن بھارت کا موقف ہے کہ وہاں معمولات زندگی متاثر نہیں ہوئے۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کو خارجہ امور کی امریکی کمیٹی کی ایک ٹویٹ کے مطابق ،'' بھارت کی جانب سے کشمیر میں مواصلاتی رابطوں پر پابندی کشمیریوں کی روز مرہ زندگیوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ بھارت کو فوری طور پر یہ پابندیاں ختم کرنا ہوں گی اور کشمیریوں کو بھی وہی حقوق دینا ہوں گے جو دیگر بھارتی شہریوں کو میسر ہیں۔‘‘
ب ج، ع ا (نیو یارک ٹائمز، ٹوئٹر)