سوشل میڈیا ایپس ’آن لائن جسم فروشی‘ کے پھیلاؤ کا سبب، رپورٹ
5 جون 2019
عالمی سطح پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق فیس بُک اور ’ٹنڈر‘ جیسی ایپلی کیشنز ’آن لائن جسم فروشی‘ اور جنسی استحصال کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہیں۔ یہ رپورٹ انسداد جسم فروشی کے لیے متحرک ایک فرانسیسی تنظیم نے جاری کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/Y. Mok
اشتہار
جسم فروشی کا کاروبار اب ’گلیوں سے نکل کر انٹرنیٹ‘ پر منتقل ہو چکا ہے جہاں جرائم پیشہ دلال انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ جیسی موبائل ایپس کے ذریعے جسم فروشی کے لیے نوجوان لڑکیوں کو بھرتی کرتے ہیں اور اس کے بعد ’ایئر بی اینڈ بی‘ جیسی ایپ کے ذریعے مکان کرائے پر حاصل کر کے ان سے جسم فروشی کراتے ہیں۔ یہ رپورٹ فرانسیسی تنظیم ’سیلے فاؤنڈیشن‘ نے تیار کی ہے جو جسم فروشی کے انسداد کے لیے سرگرم ہے۔
’جنسی استحصال، نئے مسائل اور نئے حل‘ نامی اس رپورٹ میں پینتیس سے زائد ممالک میں آن لائن جسم فروشی کے رجحانات کا جائزہ لیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ اسرائیلی ڈیٹنگ ایپ ’ٹنڈر‘ کو جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ زیمبیا جیسے ممالک میں نوجوان طالب علم واٹس ایپ اور فیس بُک گروپس کے ذریعے جسم فروشی کرنے والی خواتین اور دلالوں سے با آسانی رابطے کرتے ہیں۔
فرانس میں جرائم پیشہ گینگ ’ہائی اسکولوں اور ویلفیئر ہومز‘ کی نابالغ لڑکیوں سے فیس بُک اور سنیپ چیٹ جیسی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کی مدد سے رابطہ کرتے ہیں اور پھر انہیں ’آسانی سے رقم کمانے کے مواقع‘ فراہم کرنے کے وعدے کر کے انہیں جسم فروشی کی ترغیب دیتے ہیں۔
فرانسیسی تنظیم نے یہ بھی بتایا ہے کہ جسم فروشی کی ترغیب کی لیے اشتہارات صرف ڈیٹنگ ویب سائٹوں اور اس موضوع سے متعلقہ آن لائن گروپوں پر ہی نہیں بلکہ دیگر ویب سائٹس پر بھی جاری کیے جاتے ہیں۔
’سیلے فاؤنڈیشن‘ کے سربراہ اِیف شارپینے کا اس ضمن میں کہنا تھا، ’’چین جیسے ممالک، جہاں سخت کنٹرول ہے سے لے کر جرمنی جیسے ممالک، جہاں قوانین نرم ہیں، ان سبھی ممالک ایسا دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آن لائن جسم فروشی کے دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے باوجود نابالغ لڑکیوں سے جسم فروشی کرانے والے ملزموں کا سراغ لگانا مشکل کام ہے۔ ایسے افراد عام طور پر آن لائن شناخت چھپا کر رکھتے ہیں اور ان کے اشتہارات بھی مبہم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نشان دہی نہیں ہو پاتی۔
حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر کی حکومتوں کو انٹرنیٹ پر آزادی اظہار یقینی بنانے اور لوگوں کو ان کے شائع کردہ مواد پر ذمہ دار ٹھہرانے کے مابین توازن قائم رکھ کر قانون سازی کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
ش ح / ع ح
’بروڈول‘ سیکس ڈولز پر مشتمل جرمن قحبہ خانہ پر ایک نظر
جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں ایک ایسا قحبہ خانہ بھی ہے جہاں مرد، خواتین اور جوڑوں کو ان کی جنسی تسکین کے لیے سلیکون سے بنائی گئی گڑیاں مہیا کی جاتی ہیں۔ تفصیلات ڈی ڈبلیو کے چیز ونٹر کی ’بروڈول‘ سے متعلق اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Winter
حقیقی خواتین کیوں نہیں؟
یہ کاروبار تیس سالہ جرمن خاتون ایویلین شوارز نے شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قحبہ خانے میں کام کرنے کے لیے انہیں جرمن خواتین نہیں مل رہی تھیں اور غیر ملکی خواتین جرمن زبان پر عبور نہیں رکھتیں۔ شوار کے مطابق ان کے جرمن گاہکوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پیشہ ور خواتین ان کی بات درست طور پر سمجھ پائیں۔
تصویر: DW/C. Winter
بے زبان گڑیا
ایویلین شوارز نے ٹی وی پر جاپانی سیکس ڈولز سے متعلق ایک رپورٹ دیکھی تو انہیں لگا کہ غیر ملکی خواتین کے مقابلے میں سیکس ڈولز پر مشتمل قحبہ خانہ زیادہ بہتر کاروبار کر پائے گا۔ شوارز کے مطابق، ’’یہ دکھنے میں خوبصورت ہیں، بیمار بھی نہیں ہوتی اور بغیر کسی شکایت کے ہر طرح کی خدمات پیش کر سکتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
جذبات سے عاری اور تابعدار
’بروڈول‘ کی مالکہ کا کہنا ہے کہ کئی گاہگ سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور وہ لوگوں سے بات چیت کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے جذبات سے عاری سیکس ڈولز باعث رغبت ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
مردوں کی انا کی تسکین
جسم فروش خواتین کے پاس آنے والے گاہکوں کو مختلف خدمات کے حصول کے لیے پیشگی گفتگو کرنا پڑتی ہے جب کہ سلیکون کی بنی ہوئی یہ گڑیاں بغیر کسی بحث کے مردوں کی خواہشات پوری کرتی ہیں۔ ایویلین شوارز کے مطابق، ’’ان گڑیوں کے جذبات کا خیال رکھے بغیر مرد گاہگ جتنا چاہیں انا پرست ہو سکتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
خطرناک جنسی رویے
اس قحبہ خانے کا رخ کرنے والوں میں مرد و زن کے علاوہ ایسے جوڑے بھی ہوتے ہیں جو شوارز کے بقول خطرناک جنسی رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے گاہگوں کے لیے ’بی ڈی ایس ایم‘ کمرہ بھی موجود ہے۔ شوارز کے مطابق، ’’ کسی خاتون کے ساتھ پر تشدد ہونے کی بجائے گڑیا کے ساتھ ایسا کرنا بہتر ہے۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
گڑیوں کے ساتھ بھی جذباتی لگاؤ
شوارز کے مطابق اس قحبہ خانے میں آنے والوں گاہکوں میں سے ستر فیصد دوبارہ لوٹ کر ضرور آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر ہفتے یہاں آتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ ان گڑیوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
سماجی قبولیت بھی ہے؟
’بروڈول‘ ایسا پہلا قحبہ خانہ نہیں ہے جہاں سلیکون کی گڑیاں رکھی گئی ہیں۔ جاپان میں ایسے درجنوں کاروبار ہیں اور حالیہ کچھ عرصے کے دوران ہسپانوی شہر بارسلونا اور جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ایسے قحبہ خانے کھولے جا چکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ میں اس کاروبار کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
تصویر: DW/C. Winter
یہ کاروبار کتنا اخلاقی ہے؟
اس قحبہ خانے کی مالکہ کے مطابق انہیں اس کاروبار کے اخلاقی ہونے سے متعلق کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ تو بس کھلونوں کی مانند ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
سیکس ڈولز کے چہروں کے بچگانہ خدوخال؟
کئی ناقدین نے سلیکون کی بنی ان گڑیوں کے چہروں کے بچگانہ خدوخال کے باعث شدید تنقید بھی کی ہے۔
تصویر: DW/C. Winter
’صفائی کاروباری راز‘
قحبہ خانے کا آغاز چین سے درآمد کی گئی چار گڑیوں سے کیا گیا تاہم طلب میں اضافے کے سبب اب یہاں سلیکون کی بارہ سیکس ڈولز ہیں جن میں سے ایک مرد گڑیا بھی ہے۔ ’بروڈول‘ کی مالکہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صفائی کیسے کی جاتی ہے، یہ ان کا کاروباری راز ہے لیکن ان یہ بھی کہنا تھا کہ ہر گاہک کے بعد گڑیوں کی مکمل صفائی کر کے انہیں ہر طرح کے جراثیموں سے پاک کیا جاتا ہے۔