تمباکو نوشی اور فضائی آلودگی دل کے عارضے، دمے اور پھیپھڑوں کے سرطان جیسیبیماریوں کے خطرات بڑھاتے ہیں اور ان میں مبتلا افراد کوِوڈ انیس کے مقابلے میں کم زور ثابتہوتے ہیں۔
اشتہار
اب تک کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے دو بنیادی اسباب سامنے آئے ہیں،ایک زیادہ عمر اور دوسرا کم زور مدافعتی نظام۔ محققین کے مطابق فضائی آلودگی دوسریوجہ یعنی مدافعتی نظام کی کم زوری سے نتھی ہے۔
گھانا کی کیپ کوسٹ یونیورسٹی کے متعدی بیماریوں اور فضائی آلودگی کے شعبے سےوابستہ کوفی امیگا کہتے ہیں، "اگر آپ آلودگی کے شکار علاقے میں رہتے ہیں، تو آپ کے پیپھڑےویسے ہوتے ہیں، جیسے کسی تمباکو نوش کے۔ تو آپ کی زندگی بھی کورونا وائرس کے نشانےپر ہے۔"
غیرمعیاری ہوا سالانہ بنیادوں پر سات ملین افراد کی ہلاکت کی وجہ بن رہی ہے اور کووِڈ انیسکی عالمی وبا کی موجودگی میں یہ تعداد شاید کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہآلودہ فضا میں سانس لینے والے افراد اگر کورونا وائرس کا شکار ہوتے ہیں، تو یہ وائرس ان کےجسموں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یورپیئن پبلک ہیلتھ الائنس نے بھی گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ فضائی آلودگی ممکنہ طور پر کووِڈانیس سے بچ جانے کے امکانات کو کم کرتی ہے۔
محققین ماضی میں بھی فضائی آلودگی کی موجودگی میں متعددی بیماریوں کو زیادہ ہلاکتخیز قرار دے چکے ہیں۔ سن 2003 میں سارس وائرس کے پھیلاؤ کے وقت کیے جانے والےمطالعاتی جائزوں میں یہ حقائق سامنے آئے تھے کہ فضائی آلودگی کے حامل علاقوں میںوائرس سے ہلاک ہونے والی کی تعداد کم فضائی آلودگی والے علاقوں کے باسیوں کے مقابلےمیں دو گنی تھی۔ مطالعاتی رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ ایسے علاقے جہاں درمیانے درجے کیفضائی آلودگی ہے، وہاں بھی سارس وائرس کے متاثرین میں ہلاکتوں کی شرح میں 84 فیصداضافہ دیکھا گیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ اگر کووِڈ انیس بھی سارس وائرس کی طرح فضائی آلودگی کے شکارعلاقوں کے رہائشیوں کے خلاف زیادہ بڑا قاتل ثابت ہوتا ہے، تو یہ وائرس میڈرڈ، لندن اورنیویارک میں انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں زیادہ دباؤ بڑھا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے وہ خطے جہاں لکڑی، گوبر، مٹی کا تیل اور کوئلہ گھر کے اندرکھانے پکانے کے لیے جلائے جاتے ہیں، وہاں یہ وائرس زیادہ تباہی مچا سکتا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ شمالی اٹلی اور چینی شہر ووہان میں فضائی آلودگی کی بلند شرح اوروبائی امراض کے نتیجے میں زیادہ ہلاکتوں کے درمیان ممکنہ طور پر تعلق ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق آلودہ ہوا میں موجود دو اعشاریہ پانچ مائیکرون قطر کے ذرات یعنی ایسےذرات جو انسانی بال سے کم چوڑائی کے حامل ہیں، پیپھڑوں کے حفاظتی نظام سے گزر کرخون میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی وجہ سے دل کے امراض کا خطرہبہت بڑھ جاتا ہے۔ چین میں کووِڈ انیس کے متاثرہ ایسے افراد جو دل کے عارضے میں مبتلاتھے، ان میں دیگر افراد کے مقابلے میں موت کا تناسب نو گنا زیادہ دیکھا گیا ہے۔ ذیابیطس کےشکار افراد میں یہ خطرہ چھ گنا زیادہ پایا گیا ہے۔
اجیت نرجان / ع ت / ا ا
'لاہور ایسا تو پہلے کبھی نہ تھا'
لذیذ پکوان، سیاحتی مقامات، بازاروں اور پارکوں میں لوگوں کے ہجوم والے شہر، لاہور کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے باعث شہر کی گلیاں، بازار اور دیگر سیاحتی مقامات سنسان پڑ گئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
پنجاب میں کورونا کے سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد لاہور میں
لاہور میں جزوی لاک ڈاؤن جاری ہے، سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے ، سیاحتی مقامات اور دفاتر بند ہیں ۔ لاہور کے مینار پاکستان کا یہ سبزہ زار ملک بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا تھا، اب یہ ایک سنسان سی جگہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ محکمہ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پنجاب میں کورونا کے قرنطینہ میں موجود زائرین کے بعد پنجاب میں کورونا کے سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد لاہور میں ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
پولیس کے ناکے
شہریوں کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے پولیس متحرک ہے، جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں، لاہور پولیس کے مطابق لاک ڈاؤن کے بعد سے ان ناکوں پر اب تک پچپن ہزار افراد کو روکا گیا ہے۔ ایک ہزار پانچ سو بتیس گاڑیاں اورموٹرسائیکلیں دفع ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی پر بند کر دی گئی ہیں، غیر ضروری سفر کرنے والے دو ہزار سے زائد مسافروں سے شورٹی بانڈز لیے گئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
فوج کی گاڑیوں کا فلیگ مارچ
شہر میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج طلب کر لی گئی ہے، وقفے وقفے کے ساتھ پولیس اور فوج کی گاڑیوں کا شہر کی مختلف سڑکوں پر فلیگ مارچ ہو رہا ہے۔ لاہور میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پیر کے روز ہونے والے فلیگ مارچ میں پاک آرمی، رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں نے حصہ لیا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
جی پی او چوک
لاہور میں اگرچہ لاک ڈاون جزوی ہے اور شہریوں کی محدود تعداد کو ادویات اور اشیائے خردونوش خریدنے کی مخصوص اوقات میں اجازت ہے، لیکن لاہور کے مال روڈ پر واقع جی پی او چوک کا یہ علاقہ جو عام طور پر بہت بارونق ہوتا ہے، اب یہاں دوکانیں اور دفاتر بند ہیں۔ یہ علاقہ کبھی کبھی تو ویرانے کا سا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور کا فیصل چوک
لاہور کا فیصل چوک بھی روایتی رونقوں سے محروم ہے، واپڈا ہاوس کی یہ بلند و بالا عمارت بھی افسردگی کا احساس لیے ہوئے ہے، اس سے ملحقہ پٹرول پمپ پر اکا دکا گاڑی دکھائی دیتی ہے، واپڈا ؛ہاوس کے آس پاس کے علاقوں میں الحمرا آرٹس سنٹر بند ہونے سے فنون لطیفہ کی یہاں تمام سرگرمیاں ٹھپ ہیں، سینما اور تھیٹر بھی بند ہیں اور یہاں کے فائیو سٹار ہوٹل میں بھی کوئی گاہک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
کورونا کا خوف
اندرون شہر اور لاہور کے بعض دوسرے علاقوں میں چھوٹے گھروں میں بند ہو کر رہنا آسان کام نہیں ہے، انارکلی سے ملحقہ علاقے نیلا گنبد میں ایک شہری بچوں کے ساتھ کچھ دیر کے لیے باہر نکلا ہے۔ لیکن کورونا کے خوف سے اس نے بچوں کو حفاظتی ماسک پہنا رکھے ہیں، اب شہر میں زیادہ تر لوگ اسی طرح ہی نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
ریلوے اسٹیشن بھی ویران
ٹرینین بند ہو جانے کے بعد تو لاہور کا ریلوے اسٹیشن بھی ویران ہو گیا ہے، یہاں پر اب ٹھیلے والے، قلی، مسافر اور ریلوے اہلکاروں سمیت کوئی نظر نہیں آ رہا، ریلوے اسٹیشن کے اندر مختلف پلیٹ فارموں پر بھی ہو کا عالم ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ڈیلی ویجز ملازمین کے لیے ایک امدادی سکیم کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
گھر سے کیوں نکلے تھے؟
شہر میں آنے والے جانے والے تمام راستوں پر پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ فوجی جوان بھی موجود ہیں۔ اس تصویر میں لاہور کے راوی پل پر شاہدرہ کے شہری اپنے گھروں کو جانے کے لئے موجود ہیں، ان کو پولیس کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ اپنے گھر سے کیوں نکلے تھے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
تمام ریسٹورنٹس بند
زندہ دلوں کے شہر لاہور میں اس وقت تمام ریسٹورنٹس بند ہیں، البتہ کھانا آرڈر پر گھر بھجوانے کی سہولت موجود ہے، میڈیکل سٹورز کے علاوہ کھانے پینے کی دوکانیں کھلی ہوئی ہیں، اس تصویر میں مزنگ کے علاقے میں ایک بزرگ سبزی خرید رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور پریس کلب کو بھی بند کر دیا گیا
لاہور میں متعدد صحافیوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہو جانے کے بعد لاہور پریس کلب کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ حکومتی شخصیات نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر ویڈیو پریس کانفرنسز شروع کر دی ہیں، زیادہ تر صحافتی امور ڈیجیٹل طریقے سے سرانجام دیے جا رہے ہیں۔ میڈیا کے کارکنوں کی کم سے کم تعداد کو باری باری دفتری امور کی انجام دہی کے لیے بلایا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
عوامی آگاہی مہم
لاہور پولیس کے اہلکاروں کی طرف سے شہر کے مختلف علاقوں میں لوگوں کو گھر سے غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلنے کی تلقین پر مشتمل اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ محکمہ صحت پنجاب کی طرف سے بھی کورونا سے بچاو کے لیے عوامی آگاہی کے لیے موٹرسائیکلوں اور رکشوں پر مہم چلائی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
جمعے کی نماز میں شہریوں کی محدود تعداد کی شرکت
پاکستان کے کئی علمائے کرام کی طرح پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے شہریوں کو مساجد میں بڑے اجتماعات منعقد نہ کرنے کی اپیل کی ہے، لاہور کی بادشاہی مسجد میں بھی جمعے کی نماز میں شہریوں کی محدود تعداد نے شرکت کی تھی، تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کے کورونا ٹیسٹ بھی پازیٹیو آئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
شہریوں میں بے چینی
لاہور میں آٹے کی قلت اور کرفیو کے ممکنہ نفاذ کی خبریں بعض اوقات شہریوں میں بے چینی کا باعث بنتی ہیں اور گراسری سٹورزسمیت متعدد جگہوں پر رش لگ جاتا ہے، پولیس اہلکار ایسے رش کو کلیئر کرانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
گوردواروں، مندروں اور کلیساؤں میں بھی اجتماعات پر پابندی
لاہور کے تمام گوردواروں، مندروں اور کلیساؤں میں بھی اجتماعات پر پابندی عائد کی جا چکی ہے، لاہور کے مال روڈ پر واقع اس کتھیڈرل چرچ کے ملحقہ سکول کو بند کر دیا گیا ہے اور چرچ کی عمارت کے آس پاس کوئی شخص بھی دکھائی نہیں دے رہا۔