حکام نے اعلان کیا تھا کہ اگر کسی کو مغربی آسٹریلیا میں ایک چھوٹا سا کیپسول دکھائی دے تو، وہ اسے ہاتھ لگانے سے باز رہیں۔ آخر کیوں؟ اس کا جواب جانیے اس رپورٹ سے۔
تصویر: Western Australian Department Of Fire And Emergency/REUTERS
اشتہار
حکام نے اعلان کیا تھا کہ اگر کسی کو مغربی آسٹریلیا میں ایک چھوٹا سا کیپسول دکھائی دے تو، وہ اسے ہاتھ لگانے سے باز رہیں۔ آخر کیوں؟ اس کا جواب جانیے اس رپورٹ سے۔
مغربی آسٹریلیا میں حکام نے اس گمشدہ چھوٹے سے مہلکتابکارکیپسول کے دوبارہ مل جانے کی تصدیق کی ہے۔ یہ کیپسول ٹرانسپورٹ کے دوران ٹرک سے کہیں گر گیا تھا۔
گزشتہ ماہ اس تابکار کیپسول کے گم ہو جانے کے بعد سے حکام تمام ممکنہ ذرائع کی مدد سے اس کی کھوج کا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ ایک سرکاری اہلکار کے مطابق اسے ڈھونڈنا گویا جیسے گھاس کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنا تھا۔ حکام نے بتایا کہ مٹر کے دانے کے سائز کا کیپسول ملک کے جنوبی حصے سے ملا ہے۔
کان کنی کی ایک معروف بین الاقوامی کمپنی 'ریوٹنٹو‘ اور مغربی آسٹریلیا میں ہنگامی سروس نے اس چھوٹے سے مگر انتہائی خطرناک تابکار کیپسول کی جنوری کے شروع میں پلبرا سے پرتھ جاتے ہوئے گم ہو جانے کی خبر کی تصدیق خود کی تھی۔ کیپسول چاندی کا ہے اور اس کا سائز 8 x 6 ملی میٹر ہے۔
اس کیپسول میں سیزیم 137 ہےتصویر: AAP Image/Department Of Fire And Emergency Services/REUTERS
یہ کیپسول تابکار کیوں ہے؟
کیپسول میں سیزیم 137 ہے۔ یہ ایک ایسا تابکار مادہ ہے جو گاما شعاعوں کو خارج کرتا ہے۔ اس سے انتہائی خطرناک قسم کیتابکاری، آئنائزنگ ریڈی ایشن خارج ہوتی ہے، جو جسم میں انتہائی گہرائی تک سرائیت کر سکتی ہے۔
گاما شعاعیں آئنائزنگ تابکاری کی سب سے زیادہ توانائی بخش اور خطرناک قسم ہیں۔ وہ آپ کے جسم کے ایٹموں سے الیکٹران نکال سکتی ہیں اور آپ کے خلیات اور آپ کے ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
کیپسول میں 19 گیگا بیکیورل تابکار موجود ہے، جو تابکاری کی اکائی ہے۔ اور 19 گیگا بیکیورلز کا مطلب ہے تقریباً 10 میڈیکل ایکس رے فی گھنٹہ۔
اس نوعیت کے کیپسول عام طور پر کان کنی کی صنعت میں لوہے کی کثافت کی پیمائش کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
کیپسول کو ٹرانسپورٹ کیا جا رہا تھا ، دوران سفر یہ ٹرک سے گر گیا تھاتصویر: AAP Image/Department Of Fire And Emergency Services/REUTERS
یہ کھویا کیسے؟
غالباً یہ تابکار کیپسول ایک ٹرک سے گرا تھا، جو اسے 'نیومین‘ کے شمال میں واقع ریو ٹنٹو کی 'گودائی ڈاری‘ کان سے پرتھ لے جا رہا تھا۔
حکام نے کہا ہے کہ دوران سفر ٹرک کی 'وائبریشن‘ کی وجہ سے پیچ اور بولٹ ڈھیلے ہو گئے تھے، اور یہ تابکار کیپسول پیکج سے باہر نکل کر کہیں گر گیا۔
حکام کے مطابق عام لوگوں کو اس کیپسول سے ''نسبتاً کم‘‘ خطرات لاحق ہیں اور اس کیپسول کی مدد سے کوئی ہتھیار بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ تاہم حکام نے اسی وقت متنبہ کر دیا تھا کہ اگر کسی کو اس کیپسول سے ملتی جلتی کوئی شے سڑک کے کنارے پر دکھے تو اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ فوری طور سے اس سے فاصلہ اختیار کریں اور کم از کم 5 میٹر دور رہیں۔
اگر آپ آئنائزنگ ریڈی ایشن سے متاثر ہو گئے تو آپ کے اندر 'ایکیوٹ ریڈی ایشن سنڈروم‘ جنم لے سکتی ہے۔ اس کی علامات میں متلی، الٹی، اسہال، تھکاوٹ، جلد کی جلن اور خون کے سفید خلیوں کی تعداد میں کمی شامل ہیں، جو آپ کے مدافعتی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ زیادہ سنگین صورتوں میں یہ اعضاء کو ناکارہ بنانے اور موت تک کا باعث بن سکتا ہے۔
چرنوبل جوہری سانحے کے 33 برس
چرنوبل جوہری حادثے میں بچ جانے والے 33 برس سے اس آفت سے نمٹنے کی کوششوں میں ہیں۔ سوویت دور میں پیش آنے والے اس سانحے کے اثرات آج تک اس علاقے کو ایک بھیانک رنگ دیے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
مرنے والوں کی یاد
اس وقت یوکرائن سویت یونین کا حصہ تھا۔ اس جوہری پلانٹ میں دھماکے کے فوراﹰ بعد 30 افراد تاب کاری کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے، جب کہ بعد میں بھی کئی افراد تاب کاری کا نشانہ بنے اور اپنی جان سے گئے۔ 90 ہزار سے زائد مزدوروں نے اس آفت زدہ پلانٹ کے گرد چھ ماہ بعد ایک مضبوط دیوار قائم کی۔
تصویر: DW/F. Warwick
بچ جانے والے خوش قسمت
سیرگئی نوویکوف بچ جانے والے خوش قسمت افراد میں سے ایک تھے۔ انہوں نے 1986ء میں اس پلانٹ کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ اس انتہائی تاب کاری کے مقام پر کام کی وجہ سے انہوں نے قرب المرگ کیفیت کا سامنا کیا۔ وہ ہسپتال میں داخل ہوئے اور ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ وہ اگلے کچھ ماہ میں جان کی بازی ہار بیٹھیں گے، مگر ڈاکٹروں کے اندازے غلط نکلے۔
تصویر: DW/F. Warwick
دن شمار کرتے لوگ
نوویکوف کی اہلیہ رائسہ نے اس وقت کلینڈر پر وہ دن نشان زدہ کرنا شروع کر دیے تھے، جب ان کے شوہر چرنوبل سانحے کے بعد انتہائی تاب کاری والے علاقے میں کام کرتے تھے۔ وہ پیلے قلم اور نیلے قلم سے اس کیلنڈر پر دن شمار کرتی رہیں۔ سول اور فوجی اہلکاروں کی تعداد چھ سے آٹھ لاکھ تھی، جنہوں نے اس سانحے کے بعد کلین اپ یا صفائی آپریشن میں حصہ لیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘ کی علامت یہ آئیکون ہے۔ اس میں ایک طرف یسوع مسیح جنت میں دکھائی دیے رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب اس سانحے کے متاثرین اور صفائی کے کام میں مصروف اہلکار ہیں، جنہیں وہ محبت نذرانہ کر رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بہت سے افراد نے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور مقامی آبادی کو دیگر مقامات پر منتقل کیا گیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
تنہا چھوڑ دیے گئے ملازمین
اس سانحے کے بعد صفائی کے کام میں حصہ لینے اور تاب کاری کے سامنے ڈٹے رہنے والے افراد کو بعد میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ یہ افراد برسوں اپنے لیے مراعات اور پینشن کی کوششیں کرتے رہے۔ نیل مارداگالیموف بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں جن کے مطابق انہوں نے اس سانحے کے بعد اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں، مگر حکومت کی جانب سے انہیں بعد میں کچھ بھی نہ ملا۔
تصویر: DW/F. Warwick
کھلے آسمان تلے
کوپاچی کے علاقے میں ایک گڑیا زمین پر پڑی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ گاؤں اس واقعے کے بعد خالی کرا دیا گیا تھا اور اب تک یہ کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب بھی یہاں تاب کاری کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی کے جوہری حملے سے بیس گنا زیادہ ہے۔
تصویر: DW/F. Warwick
واپس لوٹنے والے
زالیسیا خالی کرائے جانے والا سب سے بڑا گاؤں تھا۔ یہاں سے 35 سو افراد کو سن 1986اور 1987 میں مختلف شہری مقامات پر منتقل کیا گیا، تاہم ان فراد کو شہروں میں رہنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور قریب ایک ہزار افراد بعد میں رفتہ رفتہ اپنے گاؤں واپس لوٹ آئے۔ انہیں میں ایک خاتون روزیلینا دسمبر میں اپنی عمر کی آٹھویں دہائی میں فوت ہو گئیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
شہرِ خموشاں
اس جوہری تنصیب سے تین کلومیٹر دور واقع شہر پریپیات سوویت اشرافیہ کا مسکن تھا، جہاں زیادہ تر افراد ماسکو، کییف اور دیگر مقامات سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ یہاں کا معیار زندگی انتہائی بلند تھا، مگر چرنوبل حادثے نے یہ شہر ایک کھنڈر بنا دیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
فطرت کی واپسی
کھیلوں کا یہ مرکز پریپیات کے ان مقامات میں سے ایک ہے، جہاں معیار زندگی کی بلندی دیکھی جا سکتی ہے۔ سوویت دور کے اہم ایتھلیٹس اس شہر میں آیا کرتے تھے۔ اب یہاں پودوں میں سبز پتے رفتہ رفتہ دکھائی دینے لگے ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
نمبر تین اسکول
اس شہر کی ایک تہائی آبادی 18 برس سے کم عمر افراد پر مشتمل تھی، جو قریب 17 ہزار بنتی تھی۔ اس شہر میں 15 پرائمری اور پانچ سیکنڈری تھے، جب کہ ایک ٹیکنیکل کالج بھی تھا۔
تصویر: DW/F. Warwick
سوویت ماسک
سوویت دور میں اسکولوں میں شہری دفاع کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی، جن میں گیس حملے کی صورت میں ماسک کا استعمال بھی سکھایا جاتا ہے۔ اسکول نمبر تین میں یہ گیس ماسک بچوں کو اسی تربیت کے لیے دیے گئے تھے، جب اب وہاں ایک ڈھیر کی صورت میں موجود ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
ایک سوویت یادگار
لگتا ہی نہیں کہ پریپیات یوکرائن کا علاقہ ہے۔ ایک مقامی گائیڈ کے مطابق، ’’یہ شہر ایک سوویت یادگار ہے اور بتاتا ہے کہ سوویت دور میں زندگی کیسی ہوا کرتی تھی۔‘‘