پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں دہشت گردوں کے ایک حملے میں جمعہ یکم دسمبر کی صبح طالب علموں اور چوکیدار سمیت نو افراد ہلاک ہو گئے۔ تینوں خودکش حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔
اشتہار
دہشت گرد صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر ایک رکشے کے ذریعے پشاور کے ایگریکلچر ٹریننگ اِنسٹیٹیوٹ پہنچے۔ اطلاعات کے مطابق تینوں حملہ آور دہشت گردوں نے برقعے اوڑھ رکھے تھے۔ خیبر پختونخوا میں سکیورٹی اہلکار برقع پوش خواتین کی سخت چیکنگ نہیں کرتی، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ دہشت گرد آسانی کے ساتھ بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد ساتھ لیے اپنے ہدف تک پہچنے میں کامیاب رہے۔
دہشت گردوں نے سب سے پہلے گیٹ پر موجود چوکیدار کو گولی مار کر ہلاک کیا اور پھر وہ ہاسٹل کی طرف چلے گئے۔ اگرچہ آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے لیکن دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ سو سے زائد طالب علم اس وقت ہاسٹل میں موجود تھے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں پینتیس افراد زخمی جب کہ نو ہلاک ہو گئے جب کہ باقی طلبا کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا۔
حیات میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے میڈیکل ڈایرئکٹر ڈاکٹر شہزاد اکبر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس ہسپتال میں لائے گئے پندرہ زخمیوں میں سے سات کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا جب کہ دو شدید زخمی طلبا کا آپریشن کیا گیا۔ ڈاکٹر شہزاد کے مطابق اب ان زخمی طالب علموں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
اس دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے طالب علموں کا تعلق اورکزئی ایجنسی، بنوں، دیر اور چترال سے ہے، زیادہ تر طلبا کی میتیں پوسٹ مارٹم کے بعد ان کے آبائی علاقوں کی جانب روانہ کی جا چکی ہیں۔
ہسپتال میں موجود زخمی طلباء میں سے ایک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں ہاسٹل کے کمرے میں کتاب پڑھ رہا تھا۔ قریبی سڑک پر تعمیراتی کام کے باعث گرد سے بچنے کے لیے کمرے کی کھڑکیوں کو پردے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ میں نے گولیوں کی آواز سنی لیکن میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ دہشت گردوں نے ہمارے ہاسٹل پر حملہ کیا ہے کیونکہ ہمارا تعلق تو زراعت سے ہے۔‘‘ اس طالب علم کا مزید کہنا تھا، ’’میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا لیکن خوفزدہ بلکل بھی نہیں ہوا۔ میرے بہت عزیز دوست مارے گئے، میں تو صرف زخمی ہوا ہوں۔‘‘ حملے میں زخمی ہونے والے اس طالب علم کا یہ بھی کہنا تھا کہ چند طالب علموں نے ہاسٹل کے چھت سے چھلانگ لگا کر اپنی جانیں بچائیں۔
دہشت گردانہ حملے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک نِجی ٹی وی کا رپورٹر رحم یوسفزئی بھی زخمی ہوا تاہم اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ہلاک کیے گئے تین حملہ آوروں میں سے دو کی شناخت نہیں ہو سکی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ’تحریک طالبان پاکستان نے اس دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی اور حملہ آور اپنے رہنماؤں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے‘۔
خیبر پختونخواہ کے انسپکٹر جنرل صلاح الدین محسود کا کہنا تھا کہ پولیس اطلاع ملتے ہی فوری طور پر موقع پر پہنچ گئی تھی۔ پولیس کے مطابق حملے کی جگہ سے تین خودکش جیکیٹس اور بھاری مقدار میں بارودی مواد بھی ملا جسے ناکارہ بنا دیا گیا۔
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
آرمی پبلک سکول پر حملے کو تقریباﹰ ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن متاثرہ بچوں کے والدین کے ذہنوں میں ابھی تک درجنوں ایسے سوالات گردش کر رہے ہیں، جن کا حکومت اور سکیورٹی اداروں سمیت کوئی بھی جواب دینے کے لیے تیار نہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
پشاور میں پیش آنے والا سانحہ سینکڑوں والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ بن چُکا ہے۔ ایک برس پہلے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے میں 148 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ والدین کے خواب ایسے چکنا چور ہوں گے، کبھی کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
والدین کے مطابق حملہ آوروں کے بارے میں حکومتی موقف میں بھی تضاد ہے اور آج تک سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں ہو سکا، ’’اس واقعے سے چند ماہ قبل سکیورٹی میں کمی کیوں کی گئی؟ سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داروں سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی اور والدین کو ان تمام سوالات کے جواب چاہیں۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images/A. Majeed
ایک سال گزرنے کے بعد بھی یہ بچے اور ان کے والدین کے دکھوں میں کمی نہیں آئی۔ سائکاٹرسٹ ڈاکٹر عرفان اللہ خان کے مطابق پچاس فیصد بچے ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے جبکہ والدین میں ان بچوں کی زیادہ تر مائیں اب بھی خواب آور ادویات کا استعمال کرتی ہیں۔
تصویر: Faridullah Khan
مبین شاہ کی والدہ سے بات کی جن کا کہنا تھا، ’’مبین شاہ آفرید ی میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس نیت سے آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا کہ حساس علاقے میں موجود فوج کی نگرانی میں میرا بیٹا بھی محفوظ رہے گا لیکن دہشت گرد وہاں بھی پہنچ گئے اور میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا۔ اب بھی عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اس قدر محفوظ علاقے میں چند لوگ کیسے داخل ہوئے اور کس طرح قتل عام کیا؟ ‘‘
تصویر: DW/F. Khan
شہزاد اعجاز کے والد میاں اعجاز احمد کا کہنا تھا، ’’خود اپنے جواں سال بچے کو نہلایا تھا، اس کے جسم میں گیارہ گولیاں لگی تھیں، یہ کس طرح بھول سکتا ہوں۔ یہ غم ہم قبر تک لے کر جائیں گے۔ میرا بیٹا گیارہ گولیاں کھا کے کس طرح مرا ہوگا؟ مجھے اس کا گناہ بتایا جائے۔‘‘
تصویر: DW/F. Khan
حکومت کی طرف سے زخمی بچوں کے لیے علاج کی سہولیات تو فراہم کی گئیں لیکن حملے کے ذمہ دار آج بھی حکومتی گرفت میں نہیں آ سکے اور یہ بات والدین کے لیے بھی تکلیف دہ ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران حکومت نے ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں کے والدین کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ علاج کی سہولیات بھی فراہم کیں لیکن زیادہ تر والدین ان اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
’آرمی پبلک سکول شہدا فورم‘ کے صدر عابد رضا بنگش کا کہنا تھا، ’’اکتوبر میں انتظامیہ کو اس طرح کے واقعے کی اطلاع دی گئی لیکن پھر بھی سکیورٹی بہتر نہ ہوسکی۔ خو د پولیس کے سربراہ نے تسلیم کیا ہے کہ واقعہ پولیس کی غفلت کا نتیجہ تھا لیکن کسی کو سزا نہیں ہوسکی۔ اگر سولہ دسمبر تک حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو شہدا پیکج سمیت تمغے اور ایوارڈ بھی واپس کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/F. Khan
والدین کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بناکر اس کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلا ف کارروائی کی جائے۔ متاثرہ والدین کے مطابق نہ تو حکومت اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکی اور نہ ہی بچوں کو قومی اعزاز دیے گئے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
حکومتی اداروں کی ’سرد مہری‘ نے والدین کو مایوس کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی والدین نے اس دوران ’اے پی ایس کے شہدا‘ کے نام سے ہونے والی تمام سرکاری تقریبات سے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور چشم دید گواہ ابھی تک اس بھیانک خواب سے نہیں نکل سکے۔ واقعے کے چشم دید گواہ طالب علم ذکریا اعجاز نے اپنے تاثرات کچھ اس طرح بیان کئے، ’’میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ اس دن کالج میں سیکنڈ ایئر کا پرچہ تھا۔ زیادہ تر طلبا آڈیٹوریم میں تھے اور جب میں اپنے والد سے ملا اور پتہ چلا کہ میرا بھائی بھی اس میں شہید ہوا ہے تو پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
ڈاکٹروں کے مطابق پشاور اسکول حملے میں زخمی ہونے والے بچے ابھی تک شدید خوف کا شکار ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق مسلسل ان بچوں کا علاج کیا جائے تاکہ انہیں اس صدمے سے باہر نکالا جاسکے۔