ایک معروف امریکی تھنک ٹینک نے جمہوریت اور آزادی سے متعلق بھارت کا درجہ کم کرتے ہوئے اسے، "آزادی سے جزوی طور پر آزاد" ملک قرار دیا ہے۔
اشتہار
امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے ایک معروف ادارے 'فریڈم ہاؤس' نے نریندر مودی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی بدترین صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی آزادی اور جمہوریت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے "جزوی طور پر آزد" ملک کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ گزشتہ تقریبا 25 برسوں میں پہلی بار بھارت کی درجہ بندی میں یہ تنزلی دیکھی گئی ہے۔
واشنگٹن میں واقع اس ادارے نے بدھ تین مارچ کی شام کو "فریڈم ان دی ورلڈ" عنوان سے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اپنے مسلم شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک جاری ہے اور حکومت کے ناقدین اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہی وجوہات کے سبب رواں برس کی درجہ بندی میں بھارت کی پوزیشن کافی نیچی آگئی ہے۔
رپورٹ میں، "متعدد برسوں کے ایسے طریقہ کار کا حوالہ دیا گيا ہے جس کے تحت ہندو قوم پرست حکومت اور اس کے اتحادی بڑھتے ہوئی پر تشدد کارروائیوں اور تفریق پر مبنی سلوک کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔"
اس رپورٹ میں گزشتہ برس دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات، حکومت کے ناقدین کے خلاف بغاوت کے مقدمات اور کورونا وائرس کے سد باب کے لیے مودی حکومت نے جو لاک ڈاؤن نافذ کیا اس دوران مہاجر مزدوروں پر گزرنے والے آلام و مصائب کا بھی ذکر ہے۔
پرانی دہلی، مسائل کے باوجود سیاحتی کشش برقرار
نئی دہلی کے قدیمی علاقے کی تنگ گلیاں بھارتی دارالحکومت کی عظیم تاریخ کی امین ہیں۔ ان گلیوں میں ہوٹل، بازار اور تاریخی عمارتیں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔
تصویر: Ankita Mukhopadhyay/DW
بھیڑ والے بازار
دہلی کا پرہجوم پرانے بازار ہر آنے والے کے لیے دلچسپی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ یہاں کتابیں،عروسی ملبوسات، مصالحہ جات اور ہر قسم کی اشیاء ملتی ہیں۔ کسانوں کے حالیہ احتجاج کے بعد لوگوں کے رش میں کمی دیکھی گئی ہے۔
تصویر: Ankita Mukhopadhyay/DW
جامع مسجد میں نماز
دہلی کی جامع مسجد بھارت کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ اسے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا۔ کورونا لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد یہاں جمعے کی نماز کا سلسلہ بحال ہو گیا ہے۔
تصویر: Ankita Mukhopadhyay/DW
اسٹریٹ فوڈ کی قدیمی روایت
بھارتی دارالحکومت کے قدیمی علاقے میں مغل دور سے اسٹریٹ فوڈ کی روایت چلی آرہی ہے۔ دوکانوں پر طرح طرح کے کھانے سجے دکھائی دیتے ہیں۔ محمد شاکر سن 1947 سے کباب کی دوکان چلا رہے ہیں۔ شاکر کے مطابق ہر طرح کے مشکل حالات کے باوجود ان کے کاروبار کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
تصویر: Ankita Mukhopadhyay/DW
مشہور جلیبی والا
پرانی دہلی میں جلیبی کی ایک مشہور دوکان ہے۔ اس کا آغاز سن 1884 میں ہوا۔ یہاں ہر روز بے شمار لوگ تلی ہوئی میٹھی جلیبی کھانے آتے ہیں۔ کورونا وبا بعد دوکان میں ماسک اور دستانے پہن کر جلیبی بنائی جاتی ہے۔
تصویر: Ankita Mukhopadhyay/DW
غریبوں کے لیے مفت کھانا
اس علاقے میں کئی مقامات پر روزانہ غریب اور مفلوک الحال لوگوں کے لیے مفت خوراک کا انتظام کیا جاتا ہے۔ کورونا وبا میں بیروزگاری میں اضافہ ضرور ہوا لیکن خیرات کرنے والوں کا جذبہ بھی کم نہیں ہوا۔
تصویر: Ankita Mukhopadhyay/DW
چاندنی چوک کی رونقیں
اس چوک کو پرانی دہلی کا کہا جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کے مطابق کورونا کے بعد بعض بلڈرز اس پرانے علاقے کو مسمار کرکے نئی تعمیرات کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ مالی تنگی کے شکار خاندانوں کو انہیں اپنی ملکیت بیچنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
تصویر: Ankita Mukhopadhyay/DW
کشمیریوں کا پسندیدہ علاقہ
شہر کے اس قدیمی حصے میں کشمیریوں کی خاصی تعداد بستی ہے، جہاں لذیذ کشمیری کھانے ملتے ہیں۔ حمید کی خواہش ہے کہ وادی کشمیر میں اساتذہ کے حالات بہتر ہوں۔ حمید کے مطابق وہ اپنی آواز حکمران طبقے تک پہچانے کے لیے دہلی آئے ہوئے ہیں۔
تصویر: Ankita Mukhopadhyay/DW
لال قلعہ بند
مغل بادشاہ شاہ جہاں نے جب دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا تو لال قلعے کو اپنی رہائش گاہ قرار دیا۔ اس سال جنوری میں کسانوں کے مظاہروں کے درمیان لال قلعہ احتجاج کا مرکز بن گیا، جس کے بعد سے اس تاریخی مقام کو سیاحوں کے لیے بند کردیا گیا ہے۔
تصویر: Ankita Mukhopadhyay/DW
8 تصاویر1 | 8
فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق آزادی کے مراتب کی مناسبت سے جس ملک میں سب سے زیادہ آزادی ہو اس کے لیے 100 نمبر مقرر ہیں۔ اس طرح بھارت کو اس بار 67 نمبر ملے جبکہ اس سے قبل تک اس کے 71 نمبر تھے۔ آزادی کی رینکنگ میں 211 ملکوں کی فہرست میں بھارت پہلے 83 نمبر پر تھا اور اب یہ 88 ویں نمبر پر پہنچ گيا ہے۔
رپورٹ میں کہا گيا ہے، "مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی رہنمائی میں انسانی حقوق کی تنظیموں پر دباؤ ڈالنے، دانشوروں اور صحافیوں پر دھونس جمانے اور لنچنگ سمیت مسلمانوں پر سلسلہ وار متعصبانہ حملے جاری رہے ہیں۔"
رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ مودی کے 2019 ء میں دوبارہ انتخابات میں کامیاب ہونے اور کورونا وائرس کی وبا کے دوران حکومت نے جو اقدامات کیے اس سے انسانی حقوق کےمزید متاثر ہو نے جیسی وجوہات کے سبب بھارتی آزادی کی ریکنگ میں اس قدر تنزلی آئی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ مودی کی حکومت اور ریاستی سطح پر اس کے دوسرے اتحادیوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف جہاں سخت کارروائیاں جاری رہیں، وہیں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے، "مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنايا گيا اور انہیں غیر مناسب طریقے سے اس کا ذمہ دار ٹھہرا یا گيا، ۔" اس سے ان پر ہندو گروپوں کی جانب سے حملے بڑھ گئے۔
ہم پر انگلی کيوں اٹھائی؟ مودی حکومت کی طرف سے عالمی شخصیات کی مذمت
بھارتی کسانوں نے متنازعہ زرعی اصلاحات کی مخالفت ميں دو ماہ سے زائد عرصے سے نئی دہلی کے مضافات ميں دھرنا دے رکھا ہے۔ کئی عالمی شخصيات نے کسانوں کے حق ميں بيانات ديے، جنہیں مودی حکومت نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Radke
اہم شخصيات کی حمايت اور بھارت کی ناراضگی
سوشل ميڈيا پر مشہور گلوکارہ ريحانہ اور سويڈش ماحولیاتی کارکن گريٹا تھونبرگ سميت کئی اہم عالمی شخصيات نے بھارت ميں سراپا احتجاج کسانوں کی حمايت کی۔ بھارتی حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات ميں ’دخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Ivanov
اصلاحات يا کارپوريشنوں کا مفاد؟
گزشتہ برس ستمبر ميں بھارتی حکومت نے زراعت کے شعبے ميں نئے متنازعیہ قوانین وضع کیے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اقدامات بڑی بڑی کارپوريشنوں کے مفاد ميں ہيں۔ کسانوں نے دو ماہ سے زائد عرصے قبل دارالحکومت دہلی کے نواح ميں اپنا احتجاج شروع کيا۔ مگر وزيراعظم نريندر مودی ڈٹے ہوئے ہيں کہ اصلاحات کسانوں کے مفاد ميں ہيں اور انہيں واپس نہيں ليا جائے گا۔
تصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance
نيا قانون کيوں متنازعہ؟
کسانوں تنظیموں کا موقف ہے کہ نيا قانون اس بات کی گارنٹی نہيں ديتا کہ زرعی پيداوار کسی کم از کم قيمت پر بک سکے گی، جس کے باعث وہ کارپوريشنوں کے چنگل ميں پھنس جائيں گے۔ اپنے مطالبات منوانے کے ليے کسانوں نے کئی ريلياں نکاليں۔ چھبيس جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر ايک ريلی ميں ہنگامہ آرائی کے بعد سے ماحول کشيدہ ہے۔
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS
ريحانہ
باربيڈوس کی معروف پاپ اسٹار ريحانہ نے حال ہی ميں بھارتی کسانوں کی حمايت کا اظہار کيا۔ انہوں نے ٹوئيٹ میں کہا، ’’ہم اس بارے ميں بات کيوں نہيں کر رہے؟‘‘ عالمی سطح پر ان کی اس ٹوئيٹ کو کافی سراہا گيا مگر بھارت ميں کئی نامور ستارے اپنے ملک کے دفاع ميں بول پڑے اور ريحانہ کے خلاف کافی بيان بازی کی۔
تصویر: picture alliance/dpa/A.Cowie
گريٹا تھونبرگ
اٹھارہ سالہ ماحول دوست کارکن گريٹا تھونبرگ نے بھی ايک ٹوئيٹ ميں بھارتی کسانوں اور ان کی تحريک کی حمايت کی، جس پر حکمران بھارتی جنتا پارٹی کافی نالاں دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
جسٹن ٹروڈو
کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے دسمبر ميں کسانوں کی حمايت ميں بيان ديتے ہوئے دھرنے پر تشويش ظاہر کی۔ اس پر بھارتی وزارت خارجہ نے بيان جاری کيا کہ ٹروڈو کا بيان بھارت کے اندونی معاملات ميں دخل اندازی ہے۔
تصویر: Sean Kilpatrick/The Canadian Press/ZUMAPRESS.com/picture alliance
امانڈا سرنی
انسٹاگرام اسٹار امانڈا سرنی نے اپنے اکاؤنٹ پر تين بھارتی خواتين کی تصوير شيئر کی، جس پر لکھا تھا کہ ’دنيا ديکھ رہی ہے۔ آپ کا يہ مسئلہ سمجھنے کے ليے بھارتی، پنجابی يا جنوبی ايشيائی ہونا ضروری نہيں۔ صرف انسانيت کے ليے فکر ضروری ہے۔ ہميشہ آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت، سب کے ليے بنيادی شہری حقوق اور ملازمين کے احترام کا مطالبہ کريں۔‘
تصویر: Scott Roth/Invision/AP/picture alliance
مينا ہيرس
امريکی نائب صدر کملا ہيرس کی بھانجی اور وکيل مينا ہيرس نے بھی ٹوئيٹ کی کہ ’ہم سب کو بھارت ميں انٹرنيٹ کی بندش اور کسانوں کے خلاف نيم فوجی دستوں کے تشدد پر برہم ہونا چاہيے۔‘
تصویر: DNCC/Getty Images
جم کوسٹا
امريکی ڈيموکريٹ سياستدان جم کوسٹا نے بھی بھارت ميں کسانوں کی تحريک کی حمايت کی ہے۔ انہوں نے وہاں جاری حالات و واقعات کو پريشان کن قرار ديا۔ خارجہ امور سے متعلق کميٹی کے رکن کوسٹا نے کہا کہ کسانوں کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے اور اس کا احترام لازمی ہے۔
تصویر: Michael Brochstein/ZUMA Wire/picture alliance
روپی کور
چوٹی کی نظميں لکھنے والی بلاگر روپی کور نے ريحانہ کی جانب سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی تعريف کی اور خود بھی کسانوں کی حمايت ميں بيان ديا کہ بھارت ميں زراعت کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برسوں ميں وہاں کئی کسان خود کشياں کر چکے ہيں۔
تصویر: Chris Young/The Canadian Press/AP Images/picture alliance
جان کيوسک
امريکی اداکار اور رضاکار جان کيوسک بھی اس سال جنوری سے بھارتی کسانوں کی تحريک کی حمايت ميں بيان ديتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
11 تصاویر1 | 11
اس میں کہا گيا ہے، "جمہوری اقدار کے چیمپیئن کے طور پر کا کرنے اور چین جیسے آمرانہ ممالک کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی بجائے، مودی کی حکومت اور ان کی پارٹی المانک طور پر بھارت کو آمریت کی جانب لے کر بڑھ رہی ہے۔"
اس بار آزادی کے انڈیکس میں سب سے زیاد یعنی 100 نمبر یورپی ملک فن لینڈ کو ملے ہیں جو دنیا کا سب سے آزاد ملک قرار دیا گيا ہے جبکہ سب سے کم ایک نمبر شام اور تبت کو ملا جو دنیا کے سب سے کم آزاد ملک ہیں۔
اس رپورٹ کو تیار کرنے کے متعدد معیار ہیں جس میں ملک کی عدلیہ کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، غیر حکومتی اداروں کی آزادی اور عوام کی نقل و حمل کی آزادی جیسے پہلوؤں کا جائزہ لیا جا تا ہے۔ ان تمام شعبوں میں بھارت کی رینکنگ میں کمی آئی ہے۔
بھارت میں انٹرنیٹ کی آزادی کو تو صرف 51 نمبر ملے اور کہا گيا کہ گزشتہ تین برسوں سے بھارت میں انٹر نیٹ کی آزادی مسلسل گھٹتی گئی ہے۔ اس میں گزشتہ برس کے دہلی کے مسلم کش فسادات کا خاص طور پر ذکر شامل ہے۔ ان فسادات میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں سے بیشتر مسلمان تھے۔
پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈا آپریشن، پاکستان کا ردعمل