مودی اور بولسونارو، دو عوامیت پسند لیڈر: مشترک اور مختلف کیا
5 مئی 2021
ایک بھارت کے وزیر اعظم اور دوسرے برازیل کے صدر، دونوں عوامیت پسند اور برسراقتدار، اس کے علاوہ ان دونوں حکمران سیاست دانوں میں کیا کچھ مشترک اور کیا مختلف ہے؟ دونوں مذہبی اور قوم پسند ہیں لیکن دونوں میں بڑے فرق بھی ہیں۔
اشتہار
ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بھارت نے اہنے ہاں کورونا وائرس کے متاثرین اور اس عالمی وبا کے باعث مرنے والوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے برازیل کو پیچھے چھوڑ دیا اور اس وبا سے دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن گیا۔ بھارت میں آج بھی اس مہلک وائرس کی نئی انفیکشنز اور کووڈ انیس کی وجہ سے اموات کے روز بروز نئے ریکارڈ بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن اس صورت حال کے باوجود بھارت اور برازیل دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے ہاں مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ نہیں چاہتیں۔
وسائل کی تقسیم میں مماثلت
بھارت اور برازیل میں قدر مشترک صرف یہی نہیں ہے۔ دونوں ہی ان ریاستوں میں شمار ہوتے ہیں، جو خود کو ابھرتی ہوئی بڑی اقتصادی طاقتیں سمجھتی ہیں اور مختصراﹰ 'برِکس‘ کہلاتی ہیں۔ اس گروپ میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ برازیل اور بھارت میں یہ بات بھی مشترک ہے کہ دونوں ہی ممالک میں عوام کی آمدنی میں بہت بڑی خلیج پائی جاتی ہے: ایک چھوٹی سی اشرافیہ انتہائی امیر ہے، اس کے بعد چھوٹا سا متوسط طبقہ ہے اور اس کے نیچے عوام کی وہ اکثریت ہے، جس میں غربت اور محرومی بہت نیچے تک پھیلی ہوئی ہیں۔
بھارت میں کورونا وائرس کے بحران کا سب سے زیادہ اثر ملکی قبرستانوں میں اور شمشان گھاٹوں پر نظر آ رہا ہے۔ نئی دہلی میں لاشوں کو دفنانے کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے جبکہ ملک کے کئی شمشان گھاٹوں میں بھی جگہ باقی نہیں رہی۔
تصویر: Adnan Abidi/REUTERS
آخری رسومات کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے
بھوپال سمیت کئی متاثرہ شہروں میں بہت سے شمشان گھاٹوں نے زیادہ لاشوں کو جلائے جانے کے لیے اپنی جگہ بڑھا دی ہے لیکن پھر بھی ہلاک شدگان کے لواحقین کو اپنے عزیزوں کی آخری رسومات کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ بھوپال کے ایک شمشان گھاٹ کے انتظامی اہلکار ممتیش شرما کا کہنا تھا، ’’کورونا وائرس دھڑا دھڑ ہمارے لوگوں کو نگلتا جا رہا ہے۔‘‘
تصویر: Sunil Ghosh/Hindustan Times/imago images
گزشتہ سال کی نسبت کئی گنا زیادہ لاشیں
نئی دہلی کے سب سے بڑے قبرستان کے گورکن محمد شمیم کا کہنا ہے کہ وبا کے بعد سے اب تک وہاں ایک ہزار میتوں کو دفنایا جا چکا ہے، ’’گزشتہ سال کی نسبت کئی گنا زیادہ لاشیں دفنانے کے لیے لائی جا رہی ہیں۔ خدشہ ہے کہ بہت جلد جگہ کم پڑ جائے گی۔‘‘
تصویر: Adnan Abidi/REUTERS
آلات اور ادویات غیر قانونی حد تک مہنگے
ہسپتالوں میں بھی حالات انتہائی خراب ہیں۔ طبی حکام انتہائی نگہداشت کے وارڈز میں مریضوں کو داخل کرنے کے لیے گنجائش بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں اور مریضوں دونوں کو ہی طبی آلات اور ادویات خریدنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مارکیٹ میں یہ آلات اور ادویات غیر قانونی حد تک مہنگے داموں بیچے جا رہے ہیں۔
تصویر: Sunil Ghosh/Hindustan Times/imago images
علاج کی سہولیات سے محروم
بہت سے ہسپتالوں میں آکسیجن کی شدید کمی ہے۔ بہت سے شہری اپنے بیمار رشتے داروں کو لے کر ان کے علاج کے لیے ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں مگر ہسپتالوں میں مریضوں کا رش اتنا ہے کہ سینکڑوں مریض علاج کی سہولیات سے محروم ہیں۔
تصویر: Amarjeet Kumar Singh/Zuma/picture alliance
آکسیجن کی فراہمی کا انتظار ہی کرتے رہے
ہسپتالوں کے باہر لوگ اپنے بیمار رشتہ داروں کے لیے آکسیجن کی فراہمی کے لیے منتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے بہت سے مریض اس طرح انتقال کر گئے کہ ان کے پیارے ان مریضوں کے لیے آکسیجن کی فراہمی کا بےسود انتظار ہی کرتے رہے۔
تصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance
سب سے زیادہ نئی انفیکشنز کے عالمی ریکارڈ
بھارت میں نئی کورونا انفیکشنز کی یومیہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ گزشتہ پانچ دنوں سے وہاں روزانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ نئی انفیکشنز کے مسلسل عالمی ریکارڈ بنتے جا رہے ہیں۔ اتوار پچیس اپریل کو وہاں کورونا وائرس کے تقریباﹰ تین لاکھ تریپن ہزار نئے متاثرین رجسٹر کیے گئے جبکہ صرف ایک دن میں کووڈ انیس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد بھی دو ہزار آٹھ سو بارہ ہو گئی۔
ب ج، م م ( اے پی)
تصویر: Adnan Abidi/REUTERS
6 تصاویر1 | 6
نئی دہلی اور برازیلیہ دونوں ہی دارالحکومتوں میں دائیں بازو کے ایسے قوم پسند اقتدار میں ہیں، جو جوشیلے مذہب پسند عناصر کے ساتھ مل کر ریاست کے جمہوری اداروں کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
سخت لاک ڈاؤن اور کورونا کی وبا پر شبہات
جرمن ادارہ برائے عالمی اور علاقائی علوم (GIGA) کی خاتون صدر امریتا نارلیکر کہتی ہیں کہ عالمی سطح پر کورونا کی وبا کے حوالے سے سخت لاک ڈاؤن کی ضرورت اور اس وبا کے وجود ہی پر شبے کی سوچ سے متعلق جو متوازی مثالیں پائی جاتی ہیں، ان سے کسی بھی طرح کے نتائج اخذ کرنے میں جلد بازی فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ہو گی۔
وہ کہتی ہیں، ''مغربی دنیا کے ترقی پسند حلقوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ زمین کے جنوبی نصف حصے کی ریاستوں کے بارے میں ایسے سوچیں، جیسے آپ ہر کسی کے بال ایک ہی کنگھی سے سنوارنا شروع کر دیں۔ اس لیے تجزیہ کاروں اور مبصرین کو بہت محتاط رہنا چاہیے اور مشترک قدروں کے ساتھ ساتھ اقدار میں فرق پر بھی دھیان دینا چاہیے۔‘‘
کورونا وائرس بے قابو، بھارتی نظام صحت بے بس ہوتا ہوا
بھارت میں دن بدن پھلتے ہوئے کورونا وائرس بحران نے ملک کے صحت کے بنیادی ڈھانچے پر زبردست دباؤ ڈالا ہے۔ بہت سی ریاستوں میں میڈیکل آکسیجن، ادویات اور ہسپتالوں میں بستروں کی کمی کی اطلاع ہے۔
اس تصویر میں احمد آباد کے ایک ہسپتال کے باہر وفات پانے والے مریض کے رشتہ دار رو رہے ہیں۔ بھارت میں ہفتے کو ریکارڈ دو لاکھ چونتیس ہزار سے زائد کورونا کیسز درج کیے گئے تھے۔ کورونا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی دو وجوہات ہیں، ایک کورونا وائرس کی نئی قسم ہے، جو تیزی سے پھیلتی ہے، دوسرا لوگ سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھتے۔
تصویر: Ajit Solanki/AP Photo/picture alliance
آکسیجن کی کمی
متعدد بھارتی ریاستوں میں میڈیکل آکسیجن کی کمی واقع ہو چکی ہے جبکہ ملک بھر کے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ کم پڑ گئے ہیں۔ اتوار کو دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی کہا تھا کہ میڈیکل آکسیجن کی کمی ہو چکی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے صنعتی پلانٹس سے میڈیکل آکیسجن طلب کی ہے۔
تصویر: Ajit Solanki/AP Photo/picture alliance
شمشان گھاٹ بھر گئے
بھارت میں وفات پانے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ شمشان گھاٹوں میں آخری رسومات کے لیے لائنیں لگ چکی ہیں۔ وہاں ملازمین کی شفٹیں کم از کم بھی چودہ گھنٹوں کی کر دی گئی ہیں۔
تمام بڑے شہروں کے ہسپتالوں کو کووڈ مریضوں کے بڑی تعداد کا سامنا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق متعدد ہسپتالوں میں کورونا میں مبتلا تشیویش ناک حالت کے مریضوں کو بھی بیڈ میسر نہیں ہے۔ انتہائی نگہداشت کے یونٹ بھرے پڑے ہیں۔ دہلی حکومت نے آکسیجن سے لیس نئے بیڈ متعدد اسکولوں میں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت نے دوا ساز کمپنیوں سے ادویات اور طبی آکسیجن کی سپلائی بڑھانے کی اپیل کی ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق متاثرہ ریاستوں تک ادویات اور آکسیجن پہنچانے کے لیے خصوصی ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔ بھارت میں ادویات اور آکسیجن بلیک مارکیٹ میں بکنا شروع ہو گئی ہے جبکہ استطاعت رکھنے والے مہنگے داموں خرید رہے ہیں۔
اس فرق سے مراد ثقافتی یا جغرافیائی تفریق نہیں بلکہ وہ مختلف رویے بھی ہیں، جو کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران دیکھنے میں آئے ہیں۔ مثلاﹰ برازیل کے صدر جیئر بولسونارو آج تک اپنے اس پہلے اور آخری موقف سے پیچھے نہیں ہٹے کہ کووڈ انیس کی وبا ان کے نزدیک دراصل نزلے زکام جیسی بیماری ہے، جس کا ملیریا کے خلاف استعمال کی جانے والی دوا سے علاج کیا جا سکتا ہے۔
اس کے برعکس بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس مارچ سے لے کر مئی تک ملک میں بہت سخت لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا اور اس عمل کو تحریک بھی دی تھی کہ بھارت میں کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری اور پیداوار جلد از جلد شروع ہونا چاہیے۔
امریتا نارلیکر کہتی ہیں، ''صدر بولسونارو کے مقابلے میں وزیر اعظم مودی نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر فوری کاوشیں نا کی گئیں، تو انسانی جانوں کی صورت میں ادا کی جانے والی اس تاخیر کی قیمت کتنی زیادہ ہو گی۔ لیکن اگر بھارت میں کورونا کی وبا کی موجودہ اور انتہائی ہلاکت خیز صورت حال کو دیکھا جائے، تو یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ نریندر مودی نے وہ وقت استعمال ہی نہیں کیا جو ان کے پاس تھا اور جس کی مدد سے وہ بھارت کو اس وبا کی دوسری لہر کے لیے بہت اچھی طرح تیار کر سکتے تھے۔‘‘
لاک ڈاؤن: بھارتی عوام گوگل پر کیا تلاش کر رہی ہے
بھارت میں تین ہفتے دورانیہ کا لاک ڈاؤن 25 مارچ سے شروع ہوا تھا۔ لاک ڈاؤن کے دنوں میں بھارتی لوگ معروف سرچ انجن گوگل پر کورونا وائرس سے متعلق کیا کچھ تلاش کرتے رہے دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
مودی حکومت پر دباؤ کورونا کی وبا کی دوسری لہر کے شدید ہو جانے سے شروع نہیں ہوا۔ اب یہ دباؤ بس شدید ہو گیا ہے۔ اس کا آغاز تو بھارتی کسانوں کے ان احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ہی ہو گیا تھا، جو 2020ء کے اواخر میں شروع ہوئے تھے اور ابھی تک جاری ہیں۔
معروف ماہر سیاسیات ژورگ نوواک کہتے ہیں، ''بھارت میں کورونا کی وبا کی دوسری لہر کا انتہائی ہلاکت خیز ہو جانا مودی کی عوامی مقبولیت میں مزید کمی کا سبب بنا ہے۔ جنوری میں جب بھارت کا قومی دن منایا جا رہا تھا، اس روز تو حکومت کے زرعی اصلاحات کے متنازعہ پروگرام کے خلاف ملکی کسانوں کے احتجاجی مظاہرے ایک نئی انتہا کو چھونے لگے تھے۔‘‘
اشتہار
بولسونارو کے لیے بھی سیاسی حمایت کم ہوتی ہوئی
بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ہندو مذہبی تنظیم آر ایس ایس کی وسیع تر حمایت کی طرح، برازیل میں صدر بولسونارو بھی زیادہ تر پروٹسٹنٹ مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والے مذہب پسندوں کی حمایت سے اقتدار میں آئے تھے۔
بھارت کے متنازعہ نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ کسانوں نے قومی دارالحکومت کی سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کر رکھا ہے۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن تعطل برقرار ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہار نہیں مانیں گے
قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
امید باقی ہے
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت نئے سیاہ قوانین واپس لے گی اور یہ احتجاج حکومت کے لیے آخری موقع ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہم دہشت گرد نہیں
کسانو ں کی اس غیر معمولی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ مظاہرین نے 'خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے ہیں لیکن بعدازاں یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔
تصویر: Mohsin Javed
نوجوانوں کی امنگیں
مظاہرے میں بڑی تعداد میں نوجوان بھی موجود ہیں۔ ان میں اعلی تعلیم یافتہ اور مغربی ممالک سے واپس لوٹ کر زراعت کو روزگار کا ذریعہ بنانے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
خواتین بھی شانہ بشانہ
اس مظاہرے میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ان کا جوش و خروش قابل دید ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
زخمی مظاہرین
حکومت نے کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام حربے اور طریقے آزمائے۔ اس دوران آنسو گیس کے شیل لگنے سے کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
مظاہرین کی آمد کا سلسلہ جاری
ملک کے مختلف حصوں سے مرد اور خواتین کسانوں کے قومی دارالحکومت آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ملک بھر کے کسان شامل
مودی حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ صرف پنجاب کے کسانوں کی تحریک ہے لیکن متعدد ریاستوں کے کسانوں اور مختلف تنظیموں نے اس میں اپنی شمولیت کا ثبوت پیش کیا۔
تصویر: Mohsin Javed
جنگ جاری رہے گی
”ہم اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک جنگ ہے اور یہ جاری رہے گی، جب تک مزدور کسان استحصال کا شکار ہیں۔" بھگت سنگھ
تصویر: Mohsin Javed
کھانے کی تیاری
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ تک رکنے کی تیاری کرکے آئے ہیں۔ انہیں کھانے پینے کی کوئی دشواری پیش نہیں آرہی ہے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جانے والے کسان رہنمااپنا کھانا بھی ساتھ لے کر گئے تھے اور حکومتی ضیافت کو ٹھکرا دیا۔
تصویر: Mohsin Javed
ذرا تازہ دم ہوجاوں
مظاہرین کی خدمت کرتے کرتے تھک کر ایک کسان تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
ماں کا آغوش
کسان زمین کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اور نیند کے لیے ماں کے آغوش سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
حالات سے باخبر
دھرنا اپنی جگہ، لیکن 'دیش اور دنیا‘ کے حالات سے باخبر رہنا بھی تو ضروری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
علم کا کوئی بدل نہیں
مظاہروں کے ساتھ ساتھ حصول علم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے 'روڈ لائبریری‘ بھی قائم کررکھی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ڈاکٹر اور دوائیں بھی دستیاب
مظاہرے میں شامل ہزاروں افراد کے لیے صرف کھانے پینے کا ہی نظم نہیں ہے بلکہ کسانوں نے ان کی صحت کی دیکھ بھال کا پورا انتظام بھی کررکھا ہے۔ درجنوں ڈاکٹر اور طبی عملہ رضاکارانہ طور پر ہمہ وقت خدمت میں مصرو ف ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے تمام سرحدو ں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کررکھے ہیں۔ لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال دہلی میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ سڑکوں پر ہی بیٹھے رہیں گے۔
تصویر: Mohsin Javed
کنگنا رناوت پھنس گئیں
بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے مظاہرین کے خلاف ایک ٹوئٹ کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی زبردست نکتہ چینی ہورہی ہے۔ کنگنا نے گو اپنا ٹوئٹ واپس لے لیا ہے لیکن مظاہرین اب بھی ناراض ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'گودی‘ میڈیا سے ناراضگی
کسان حکومت نواز میڈیا سے سخت ناراض ہیں۔انہوں نے ایسے ٹی وی چینلوں کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ بھارت میں 'گودی میڈیا‘ حکومت نواز میڈیا کو کہتے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'سوچھ بھارت‘
وزیر اعظم نریندر مودی کی مہم 'سوچھ بھارت‘ کی عملی تصویر۔ کسان خود ہی صفائی ستھرائی بھی کررہے ہیں۔
ٹیکسٹ: جاوید اختر تصاویر: محسن جاوید
تصویر: Mohsin Javed
19 تصاویر1 | 19
پہلے وہ ایک چھوٹی سی سیاسی جماعت کے پچھلی صفوں میں نظر آنے والے غیر معروف سیاست دان تھے۔ صدر بننے کے ایک سال بعد 2019ء میں انہوں نے اس پارٹی سے اپنا تعلق ختم کر لیا اور ایسے صدر بن گئے جن کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں اور جنہیں ہر نئے قانون کی پارلیمانی منظوری کی خاطر نئے سرے سے اکثریتی تائید کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی۔
برازیلیہ کی یونیورسٹی سے منسلک محقق اور ماہر سیاسیات ثورگ نوواک کہتے ہیں، ''صدر بولسونارو کی طاقت بھی واضح طور پر کم پڑتی نظر آ رہی ہے۔‘‘ بولسونارو کو اب ملکی پارلیمان کی ایک کمیٹی کی طرف سے چھان بین کے دوران اس کے سامنے پیش ہو کر یہ وضاحت دینا ہے کہ کووڈ انیس کا وبائی مرض برازیل میں چار لاکھ سے زائد شہریوں کی موت کی وجہ کیسے اور کیوں بنا؟
بھارت میں آئینی ریاست کو شدید خطرہ
مودی اور بولسونارو میں ایک اور قدر مشترک یہ بھی ہے کہ وہ اپنی سیاسی خواہشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے بظاہر آئینی ریاست کو کمزور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ برازیل میں بولسونارو نے جو کچھ کرنے کی دھمکی دی، بھارت میں مودی وہ کر بھی چکے۔
ہم پر انگلی کيوں اٹھائی؟ مودی حکومت کی طرف سے عالمی شخصیات کی مذمت
بھارتی کسانوں نے متنازعہ زرعی اصلاحات کی مخالفت ميں دو ماہ سے زائد عرصے سے نئی دہلی کے مضافات ميں دھرنا دے رکھا ہے۔ کئی عالمی شخصيات نے کسانوں کے حق ميں بيانات ديے، جنہیں مودی حکومت نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Radke
اہم شخصيات کی حمايت اور بھارت کی ناراضگی
سوشل ميڈيا پر مشہور گلوکارہ ريحانہ اور سويڈش ماحولیاتی کارکن گريٹا تھونبرگ سميت کئی اہم عالمی شخصيات نے بھارت ميں سراپا احتجاج کسانوں کی حمايت کی۔ بھارتی حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات ميں ’دخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Ivanov
اصلاحات يا کارپوريشنوں کا مفاد؟
گزشتہ برس ستمبر ميں بھارتی حکومت نے زراعت کے شعبے ميں نئے متنازعیہ قوانین وضع کیے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اقدامات بڑی بڑی کارپوريشنوں کے مفاد ميں ہيں۔ کسانوں نے دو ماہ سے زائد عرصے قبل دارالحکومت دہلی کے نواح ميں اپنا احتجاج شروع کيا۔ مگر وزيراعظم نريندر مودی ڈٹے ہوئے ہيں کہ اصلاحات کسانوں کے مفاد ميں ہيں اور انہيں واپس نہيں ليا جائے گا۔
تصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance
نيا قانون کيوں متنازعہ؟
کسانوں تنظیموں کا موقف ہے کہ نيا قانون اس بات کی گارنٹی نہيں ديتا کہ زرعی پيداوار کسی کم از کم قيمت پر بک سکے گی، جس کے باعث وہ کارپوريشنوں کے چنگل ميں پھنس جائيں گے۔ اپنے مطالبات منوانے کے ليے کسانوں نے کئی ريلياں نکاليں۔ چھبيس جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر ايک ريلی ميں ہنگامہ آرائی کے بعد سے ماحول کشيدہ ہے۔
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS
ريحانہ
باربيڈوس کی معروف پاپ اسٹار ريحانہ نے حال ہی ميں بھارتی کسانوں کی حمايت کا اظہار کيا۔ انہوں نے ٹوئيٹ میں کہا، ’’ہم اس بارے ميں بات کيوں نہيں کر رہے؟‘‘ عالمی سطح پر ان کی اس ٹوئيٹ کو کافی سراہا گيا مگر بھارت ميں کئی نامور ستارے اپنے ملک کے دفاع ميں بول پڑے اور ريحانہ کے خلاف کافی بيان بازی کی۔
تصویر: picture alliance/dpa/A.Cowie
گريٹا تھونبرگ
اٹھارہ سالہ ماحول دوست کارکن گريٹا تھونبرگ نے بھی ايک ٹوئيٹ ميں بھارتی کسانوں اور ان کی تحريک کی حمايت کی، جس پر حکمران بھارتی جنتا پارٹی کافی نالاں دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
جسٹن ٹروڈو
کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے دسمبر ميں کسانوں کی حمايت ميں بيان ديتے ہوئے دھرنے پر تشويش ظاہر کی۔ اس پر بھارتی وزارت خارجہ نے بيان جاری کيا کہ ٹروڈو کا بيان بھارت کے اندونی معاملات ميں دخل اندازی ہے۔
تصویر: Sean Kilpatrick/The Canadian Press/ZUMAPRESS.com/picture alliance
امانڈا سرنی
انسٹاگرام اسٹار امانڈا سرنی نے اپنے اکاؤنٹ پر تين بھارتی خواتين کی تصوير شيئر کی، جس پر لکھا تھا کہ ’دنيا ديکھ رہی ہے۔ آپ کا يہ مسئلہ سمجھنے کے ليے بھارتی، پنجابی يا جنوبی ايشيائی ہونا ضروری نہيں۔ صرف انسانيت کے ليے فکر ضروری ہے۔ ہميشہ آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت، سب کے ليے بنيادی شہری حقوق اور ملازمين کے احترام کا مطالبہ کريں۔‘
تصویر: Scott Roth/Invision/AP/picture alliance
مينا ہيرس
امريکی نائب صدر کملا ہيرس کی بھانجی اور وکيل مينا ہيرس نے بھی ٹوئيٹ کی کہ ’ہم سب کو بھارت ميں انٹرنيٹ کی بندش اور کسانوں کے خلاف نيم فوجی دستوں کے تشدد پر برہم ہونا چاہيے۔‘
تصویر: DNCC/Getty Images
جم کوسٹا
امريکی ڈيموکريٹ سياستدان جم کوسٹا نے بھی بھارت ميں کسانوں کی تحريک کی حمايت کی ہے۔ انہوں نے وہاں جاری حالات و واقعات کو پريشان کن قرار ديا۔ خارجہ امور سے متعلق کميٹی کے رکن کوسٹا نے کہا کہ کسانوں کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے اور اس کا احترام لازمی ہے۔
تصویر: Michael Brochstein/ZUMA Wire/picture alliance
روپی کور
چوٹی کی نظميں لکھنے والی بلاگر روپی کور نے ريحانہ کی جانب سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی تعريف کی اور خود بھی کسانوں کی حمايت ميں بيان ديا کہ بھارت ميں زراعت کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برسوں ميں وہاں کئی کسان خود کشياں کر چکے ہيں۔
تصویر: Chris Young/The Canadian Press/AP Images/picture alliance
جان کيوسک
امريکی اداکار اور رضاکار جان کيوسک بھی اس سال جنوری سے بھارتی کسانوں کی تحريک کی حمايت ميں بيان ديتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
11 تصاویر1 | 11
اپنے دوبارہ انتخاب کے کچھ ہی عرصے بعد مودی نے 2019ء میں نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر کے پاکستان اور بھارت کے مابین متنازعہ خطے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی۔
پھر وہی دباؤ، جو حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتی ہے، یہاں تک استعمال کیا گیا کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھارت میں اپنا کام روک دینا پڑ گیا۔
یہی نہیں اس سال فروری میں بھارتی کسانوں کی احتجاجی مہم کے حوالے سے مودی حکومت کی طرف سے باقاعدہ شکایت کے بعد ٹوئٹر نے 500 سے زائد بھارتی اکاؤنٹ بند بھی کر دیے۔ یہ وہ پیش رفت ہے، جس کا کم از کم برازیل میں تو آج بھی تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
بات یہ ہے کہ بھارت اور برازیل دونوں میں ہی ایسے قوم پسند حکمران اقتدار میں ہیں، جن کی عوامیت پسندی کی یہ ممالک اقتصادی اور انسانی دونوں حوالوں سے بڑی قیمت چکا رہے ہیں۔
ژان ڈی والٹر (م م / ک م)
کورونا وائرس کا مقابلہ گائے کے پیشاب سے کرنے کی کوشش
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
گائے کا پیشاب پینے کی تقریب
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
’طبی لحاظ سے فائدہ مند‘
بھارت میں کچھ ہندو گروپوں کا اصرار ہے کہ گائے کا پیشاب طبی لحاظ سے فائدہ مند ہے، اس لیے اسے پینے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اس تقریب میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
گائے بھی مقدس اور پیشاب بھی
تقریب میں شامل ایک خاتون گائے کا پیشاب پیتے ہوئے۔ ہندو مت میں گائے کو مقدس قرار دیا جاتا ہے اور یہی وجہ سے کہ کچھ قدامت پسند ہندوؤں میں اس طرح کے فرسودہ خیالات رائج ہیں۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
کوئی طبی شواہد نہیں
تقریب میں شامل ایک ہندو پیشاب پیتے ہوئے۔ تاہم طبی ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ گائے یا اونٹ کا پیشاب کینسر یا کسی دوسری بیماری کا علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ عرب ممالک میں کچھ حلقے اونٹ کے پیشاب کو بھی طبی لحاظ سے شافی قرار دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
ایسی مزید پارٹیاں ہوں گی
گائے کا پیشاب پینے کی پارٹی 'آل انڈیا ہندو یونین‘ کے نئی دہلی میں واقع صدر دفتر میں منعقد کی گئی تھی۔ منتظمین نے کہا ہے کہ اسی طرح کی پارٹیاں دیگر بھارتی شہروں میں بھی منعقد کی جائیں گی۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
’یہ پیشاب کورونا وائرس کو توڑ‘، مہاراج
’آل انڈیا ہندو یونین‘ کے سربراہ چکراپانی مہاراج نے اس تقریب کے دوران کورونا وائرس کے فرضی کیریکیچر (خاکے) کے ساتھ ایک تصاویر بھی بنوائی، جن میں وہ گائے کے پیشاب کا پیالہ تھامے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے اس پیشاب کو کورونا وائرس کا توڑ قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
’انگریزی دوا کی ضرورت نہیں‘
اس پارٹی میں شریک ہونے والے اوم پرکاش نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ''ہم گزشتہ اکیس برسوں سے گائے کا پیشاب پیتے آ رہے ہیں اور ہم گائے کے گوبر سے نہاتے بھی ہیں۔ ہمیں کبھی بھی انگریزی دوا لینے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
’کینسر کا علاج‘
طبی ماہرین کے علاوہ بھارت میں رہنے والے اکثریتی ہندوؤں کا کہنا ہے کہ گائے کا پیشاب یا گوبر طبی لحاظ سے کسی بیماری کا علاج نہیں ہو سکتا۔ تاہم حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد رہنما وکالت کرتے ہیں کہ گائے کا پیشاب ایک دوا ہے اور اس سے بالخصوص کینسر کا علاج ممکن ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
’کورونا وائرس کے خلاف اہم ہتھیار‘
ریاست آسام میں وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان نے حال ہی میں اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب اور گوبر سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عالمی وبا سے دنیا پریشان
کووڈ انیس کو عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے، جس کی وجہ سے کم ازکم پانچ ہزار افراد ہلاک جبکہ ایک لاکھ پینتالیس ہزار کے لگ بھگ متاثر ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دسمبر چین سے پھوٹنے والی اس وبا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا ہے۔ تاہم طبی ماہرین کی کوشش ہے کہ اس بیماری کے خلاف جلد از جلد کوئی دوا تیار کر لی جائے۔