1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور پانچ وسطی ایشیائی ملکوں کی میٹنگ میں کیا ہوا؟

جاوید اختر، نئی دہلی
28 جنوری 2022

بھارت اور پانچ وسطی ایشیائی ملکوں کے رہنماؤں نے افغانستان کو مشترکہ تشویش کا موضوع قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں علاقائی سلامتی، استحکام اور ترقی کے لیے باہمی تعاون بالخصوص کنکٹیویٹی پرزور دیا۔

Indien | Tag der Republik | Premierminister Narendra Modi
تصویر: Adnan Abidi/REUTERS

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ وسطی ایشیائی ملکوں کے رہنماوں کے ساتھ جمعرات کے روز ورچوئل میٹنگ کی۔ بھارت نے میٹنگ کا اعلان پہلے ہی کیا تھا تاہم چین نے بہت مختصر نوٹس پرصدر شی جن پنگ اور وسطی ایشیائی ملکوں کے رہنماوں کی ایک ورچوئل میٹنگ دو روز قبل  25 جنوری کو منعقد ہوئی تھی۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ وزیر اعظم مودی نے وسطی ایشیائی ملکوں کے رہنماوں کے ساتھ اپنی پہلی ورچوئل میٹنگ میں قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے صدور کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت اور وسطی ایشائی ملکوں کے درمیان کنکٹیویٹی کا معاملہ بات چیت کے اہم موضوعات میں سے ایک تھا۔

ترجمان نے بتایا کہ وزیر اعظم مودی نے سہ ماہی سمٹ، وزرائے خارجہ، تجارت اور ثقافت اور قومی سلامی مشیروں کی سالانہ میٹنگ نیز سیاست، تجارت اور کنکٹیویٹی کے شعبوں میں تعاون کو مستحکم کرنے کے حوالے سے تجاویز پیش کیں اور وسطی ایشیائی ملکوں کے رہنماوں نے ان تجاویز کو قبول کر لیا۔ اس کے علاوہ افغانستان اور چابہار بندرگاہ پروجیکٹ پر ایک مشترکہ ورکنگ گروپ نیز دہلی میں 'وسطی ایشیا مرکز' کے قیام کا منصوبہ بھی تمام پانچوں وسطی ایشیائی ملکوں نے منظور کرلیا۔

تاپی گیس پائپ لائن پروجیکٹ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور افغانستان کی صورت حال کے سبب التوا کا شکار ہوگیتصویر: DW/S. Tanka Shokran

کیا پاکستان تعاون کرے گا؟

نوے منٹ تک چلنے والی میٹنگ کے بعد جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے،"رہنماوں نے اس بات پر زور دیا کہ کنکٹیویٹی پروجیکٹوں پر ترجیحی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ان ملکوں اور عوام کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون نیز رابطوں میں کئی گنا اضافہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔"  بیان میں تاہم پاکستان کے ذریعہ ٹرانزٹ تجارت پر عائد رکاوٹوں کا براہ راست کوئی ذکر نہیں ہے۔

سمٹ کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران جب بھارتی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا وسطی ایشیائی رہنما، جو پاکستان کی عمران خان حکومت کے ساتھ تجارتی رابطوں کے حوالے سے صلاح و مشورے کر رہے ہیں وہ تجارتی کنکٹیویٹی کی اجازت کے سلسلے میں حکومت پاکستان کو رضامند کرنے میں مدد کریں گے۔ تو بھارتی وزارت خارجہ میں سیکرٹری (مغرب) رینت سندھو نے جواب دیا، "پاکستان کے سلسلے میں اس سوال کا بہتر جواب وسطی ایشیائی ممالک ہی دے سکتے ہیں۔"

قابل ذکر ہے کہ مشترکہ بیان میں ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی محداف کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے "تاپی گیس پائپ لائن پروجیکٹ کی اہمیت پر زو رد یا"جسے ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان کے راستے ہو کر بھارت پہنچانے کا منصوبہ ہے۔ تاہم بیان میں بھارت کی طرف سے اس پروجیکٹ کو کسی طرح کے تعاون کا ذکر نہیں ہے۔

تاپی گیس پائپ لائن پروجیکٹ سن 2015 میں شروع کیا گیا تھا لیکن بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور افغانستان کی صورت حال کے سبب التوا کا شکار ہوگیا۔ طالبان نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ انہیں رواں برس ستمبر میں اس پروجیکٹ پر کام دوبارہ شروع ہوجانے کی امید ہے۔

تمام رہنماوں نے افغانستان کی صورت حال پر تفصیلی گفتگو کیتصویر: Saifurahman Safi/Xinhua/picture alliance

افغانستان پر تفصیلی بات چیت ہوئی

بھارتی وزارت خارجہ میں سیکریٹری رینت سندھو نے بتایا کہ تمام رہنماوں نے افغانستان کی صورت حال پر تفصیلی گفتگو کی اور وسیع معنوں میں "یکساں تشویش اور یکساں مقاصد" کا ذکر کیا اور اعلیٰ سطحی عہدیداروں پر مشتمل ایک مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے پر رضامند ہوگئے۔

انہوں نے بتایا کہ بھارت اور وسطی ایشیائی ملکوں نے افغانستان میں فوری انسانی امداد، ایک حقیقی نمائندہ اور جامع حکومت کی تشکیل کو یقینی بنانے، دہشت گردی اور منشیا ت کے غیر قانونی کاروبار کو روکنے نیز خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کو محفوظ کرنے پر بھی زور دیا۔

رینت سندھو نے مزید بتایا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ سمٹ میں شریک تمام ممالک "افغانستان کے حالیہ پیش رفت پر فکر مند ہیں اور اس پس منظر میں ہمارا باہمی تعاون علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔"

صرف دو روز قبل ہی چین کے صدر شی جن پنگ نے بہت مختصر نوٹس پر وسطی ایشیائی ملکوں کے سربراہوں کی ایک میٹنگ کیتصویر: Fabrice Coffrini/AFP/Getty Images

سمٹ اہم کیوں؟

علامتی لحاظ سے اس سمٹ کی اہمیت یہ تھی کہ بھارت اور وسطی ایشیائی ملکوں کے رہنماوں نے ایک جامع اور پائیدار بھارت۔ وسطی ایشیائی پارٹنرشپ پر زور دیا۔

اس کی ایک اور اہمیت یہ بھی تھی کہ اسے بھارت کے 73یوم جمہوریہ کے ایک روز بعد منعقد کیا گیا۔ اس مرتبہ یوم جمہوریہ تقریبات میں کوئی سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت موجود نہیں تھا۔ حالانکہ یہ امید کی جارہی تھی کہ پانچوں وسطی ایشیائی ملکوں کے سربراہوں یوم جمہوریہ تقریبات میں مہمان خصوصی کے طورپر شریک ہوں گے۔

وزیر اعظم مودی کی میزبانی میں اس سمٹ سے صرف دو روز قبل ہی چین کے صدر شی جن پنگ نے بہت مختصر نوٹس پر وسطی ایشیائی ملکوں کے سربراہوں کی ایک میٹنگ کی۔ صدر شی نے اس موقع پر خطے کو 500 ملین ڈالر امداد کی پیش کش کی اور ان ملکوں کے ساتھ تجارت کو مستحکم کرنے پر زور دیا۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں