مودی تو پھر وزیراعظم، کیا عوام کو بھی ملازمت ملے گی؟
26 مئی 2019
اسد احمد ان بارہ لاکھ نوجوانوں میں سے ایک ہیں، جو نئی دہلی میں ہر ماہ روزگار کی منڈی میں داخلے کی کوششوں میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ اسد احمد روزگار کے حصول کے لیے کمپیوٹر سیکھ رہے ہیں۔
اشتہار
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی دوسری مدت وزارت اعظمیٰ کے لیے انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک ’ نیا بھارت‘ تخلیق کریں گے۔ تاہم 18 سالہ احمد زیادہ پرامید نظر نہیں آتے کہ وہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔
پرانی دہلی کے ایک پولیس اسٹیشن میں سفید و سیاہ یونیفارم پہن کر احمد دیگر نوجوانوں کے ہم راہ تین ماہ کا کمیونٹی کورس کر رہے ہیں۔ ’’یہاں دہلی میں بہت زیادہ لوگ ہیں اور مقابلہ نہایت سخت ہے۔‘‘
ان کا کہنا ہے، ’’میں جانتا ہوں کہ یہ کورس کافی نہیں کہ مجھے نوکری دلوا دے، مگر میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں۔‘‘
مودی سن 2014ء میں برسراقتدار آئے تھے تو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کریں گے، مگر اس وعدے کی تکمیل مشکلات کا شکار رہی۔ جوں ہی انتخابات کی گرد چھٹی، مودی حکومت کو صنعتی شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی، تاکہ ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں۔
ہنرمندی کی تربیت لینے والے احمد سمیت قریب 60 طالب علم حکومتی تعاون سے جاری پروگرام میں کلاسز لے رہے ہيں۔
بھارت میں مودی کی جیت کا جشن
بھارت سے موصول ہونے والے ابتدائی غیر حتمی نتائج کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سن دو ہزار چودہ سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرتے ہوئے جیت سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ 542 سیٹوں میں سے 283 پارلیمانی سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار سبقت لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
اپوزیشن کی کانگریس جماعت کو صرف 51 سیٹوں پر سبقت حاصل ہے۔ یہ غیر حتمی اور ابتدائی نتائج ہیں لیکن اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو نریندر مودی کی جماعت واضح برتری سے جیت جائے گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
بی جے پی کو اکثریتی حکومت سازی کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جماعت بغیر کسی دوسری سیاسی جماعت کی حمایت کے حکومت سازی کرے گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
ابتدائی غیرحتمی نتائج کے مطابق بی جے پی کی اتحادی سیاسی جماعتیں بھی تقریبا 50 سیٹیں حاصل کر سکتی ہیں اور اس طرح نریندر مودی کی جماعت کے ہاتھ میں تقریبا 330 سیٹیں آ جائیں گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
اعداد وشمار کے مطابق دنیا کے ان مہنگے ترین انتخابات میں ریکارڈ چھ سو ملین ووٹ ڈالے گئے جبکہ ماہرین کے مطابق ان انتخابات کے انعقاد پر سات بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
بھارت میں ان تمام تر ووٹوں کی گنتی آج تئیس مئی کو مکمل کر لی جائے گی۔
تصویر: Reuters/A. Dave
بھارت سے موصول ہونے والے ابتدائی غیرحتمی نتائج انتہائی ناقابل اعتبار بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ سن 2004ء کے ابتدائی خیر حتمی نتائج میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کی خبریں سامنے آئی تھیں لیکن حتمی نتائج سامنے آنے پر کانگریس جیت گئی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Dave
دریں اثناء اپوزیشن کانگریس کے ایک علاقائی لیڈر نے ان انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کا انڈیا ٹوڈے نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم جنگ ہار گئے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Dave
دوسری جانب کانگریس پارٹی کے راہول گاندھی نے بدھ کے روز ان ابتدائی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ اڑتالیس سالہ گاندھی کا اپنے حامیوں سے ٹویٹر پر کہنا تھا، ’’جعلی ابتدائی نتائج کے پروپیگنڈا سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ابتدائی نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ راہول گاندھی کو ریاست اترپردیش میں امیٹھی کی آبائی حلقے میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی نسلوں سے گاندھی خاندان اس حلقے سے منتخب ہوتا آیا ہے۔
19 سالہ ندرت اکرم نے بھی اس تربیتی کورس میں داخلہ لے رکھا ہے کیوں کہ اس کا خاندان اس کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے لائق نہیں۔ انگریزی سیکھنے والی اکرم کہتی ہیں، ’’میں ریٹیل سیکٹر میں نوکری کرنا چاہتی ہوں، جہاں میں دس ہزار روپے ماہوار کما سکوں۔‘‘
بھارت کے قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی نے سن 2014 میں اقتدار میں آنے پر کہا تھا کہ وہ کاروبار دوست پالیسیوں کے ذریعے سالانہ بنیادوں پر ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کریں گے۔ بھارتی معیشت سات فیصد کی شرح نمو سے ترقی پا رہی ہے، تاہم وہاں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس بار مودی کی انتخابی مہم میں انہوں نے اپنے گزشتہ وعدے کا ذکر نہیں کیا۔