وزیراعظم نریندر مودی بھارت کی جنگلاتی حیات کے تحفظ پر ڈسکوری چینل ایک پروگرام کی فلمبندی میں حصہ لیا اور برطانوی مہم جُو بیئر گرائلزکے ہمراہ جنگلوں میں گئے۔
اشتہار
پروگرام کے ٹریلر میں اڑسٹھ سالہ نریندر مودی کو شمالی بھارت میں قائم ایک نیشنل پارک میں گرائلز کے ساتھ گھومتے دکھایا گیا ہے۔ اس وڈیو میں ان کے آس پاس ایک ٹائیگر اور ہاتھیوں سمیت ہرنوں کا گلہ بھی بھاگتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ شمالی بھارت میں واقع اس نیشنل پارک کا نام آدم خور شیروں کے مشہور شکاری جم کاربٹ کے نام سے منسوب ہے۔
ٹریلر میں بیئر گرائلز بھارتی وزیراعظم سے کہتے ہیں کہ چونکہ وہ بھارت کی انتہائی اہم شخصیت ہیں اس لیے اُن کا تحفظ وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اس کے جواب میں نریندر مودی کہتے ہیں کہ وہ جنگلات کی دنیا سے بخوبی آگاہ ہیں کیونکہ وہ قدرتی ماحول میں پلے بڑھے ہیں۔ مودی کے مطابق وہ برسوں تک پہاڑوں اور جنگلات کے قدرتی ماحول میں زندگی بسر کرتے رہے، اس لیے ان کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔
دنیا میں بھارت کی بڑھتی ہوئی آبادی اور جنگلات کے کٹاؤ پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ درختوں کی بےدریغ کٹائی کی وجہ سے جنگلاتی حیات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ صرف جنگل کے جانور ہی نہیں بلکہ نایاب جڑی بوٹیاں بھی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
گرائلز کا کہنا ہے کہ اُن کا یہ پروگرام بھارت کی جنگلاتی حیات کی بھرپور عکاسی کرے گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پروگرام میں لوگ دیکھ سکیں گے کہ نریندر مودی کس طرح خود قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے جنگلوں میں جا کر اس آگہی مہم کا حصہ بنے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنوں اور مودی کے چاہنے والوں میں ان کی شخصیت کے اس پہلو کو دیکھ کر تجسس اور خوشگوار حیرت پائی جاتی ہے۔
بھارت میں مودی کی ڈسکوری پروگرام میں شرکت کسی حد تک متنازعہ ہو چکی ہے۔ اس پروگرام کی عکاسی رواں برس چودی فروری کو کی گئی تھی۔ چودہ فروری ہی پلوامہ میں کیے گئے خودکش حملے کا دن ہے اور اس حملے میں چالیس بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ یہ ایک معمہ تھا کہ اس حملے کے وقت مودی بطور وزیراعظم ایسی کون سی مصروفیات میں شریک تھے کہ انہیں حملے کی اطلاع نہیں مل سکی اور ردعمل بھی فوراً سامنے نہیں آیا تھا۔
اب یہ واضح ہوا ہے کہ پلوامہ حملے کے دن تین بجے سے لے کر شام سات بجے تک مودی ڈسکوری چینل کے پروگرام کی عکاسی میں مصروف تھے۔ انہیں اترا کھنڈ کے کاربٹ نیشنل پارک میں سے شام کو نکلتے دیکھا گیا اور اُسی وقت انہیں پلوامہ حملے کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ مودی کو عوامی اور سیاسی ردعمل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
برطانوی مہم جُو بیئز گرائلز کا ڈسکوری چینل پریہ خصوصی پروگرام 'مین ورسز وائلڈ‘ (انسان بمقابلہ جنگلی حیات) میں بارہ اگست سے نشر کیا جائے گا۔
ع ح، ش ج، نیوز ایجنسیاں
جنگلوں کی نسبت پنجروں میں موجود ٹائیگروں کی تعداد زیادہ
آج ٹائیگروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق جنگلوں میں موجود ٹائیگروں کی تعداد چار ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے لیکن چڑیا گھروں اور گھروں میں ان کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/L. Jie
معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار
ٹائیگر چھپ کر اور تنہائی میں رہنے والا جانور ہے۔ اسے نقل و حرکت کے لیے بڑے علاقے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملائیشیا کے جنگلات، بھوٹان کے پہاڑوں اور بھارت کے ساحلی جنگلات میں ان کے لیے جگہ کم ہو رہی ہے۔ درخت تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں، کاشت کاری، بڑھتی ہوئی آبادیاں اور سڑکوں کے جال ان کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو رہے ہیں۔
نرم و ملائم بال، دھاری دار کھال اور خوبصورتی کی وجہ سے چڑیا گھروں کا یہ پسندیدہ ترین جانور ہے۔ امریکا میں یہ بات سچ لگتی ہے۔ امریکی محکمہ برائے جنگلی حیات کے مطابق گھروں اور چڑیا گھروں میں رکھے گئے ٹائیگرز کی تعداد جنگلوں میں پائے جانے والے ٹائیگرز کی نسبت کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ صرف ٹیکساس میں قید ٹائیگرز کی تعداد دو ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔
جنگلات میں ٹائیگروں کے نصف بچے ہی زندہ بچ پاتے ہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر بعض اوقات مادہ ٹائیگر بچوں کو دودھ نہیں پلاتی لیکن چڑیا گھروں میں ایسے بچوں کو کتیا کے ساتھ رکھ دیا جاتا ہے تاکہ بچے دودھ پی سکیں۔ ٹائیگر کے بچے فرق محسوس کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور اس طرح ان کے زندہ بچ جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: dapd
ٹائیگر کی تین اقسام مِٹ چکی ہیں
مجموعی طور پر ٹائیگر کی نو ذیلی اقسام ہیں لیکن آج ہمارے پاس صرف چھ ہی باقی بچی ہیں۔ صدیوں کی موسمیاتی تبدیلیوں نے ان کی نسل پر بھی اثرات چھوڑے ہیں۔ سربیا کے اس ٹائیگر (آمور، تصویر میں) کے بال اور جسامت دیگر اقسام سے بڑی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/All Canada Photos/F. Pali
افزائش نسل میں مشکلات
ٹائیگرز کی موجودہ چھ اقسام میں جینیاتی لحاظ ایک جیسی ہی ہیں لیکن ان کی عادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ٹائیگروں کی جو عادات ایشیا میں ہیں، وہ افریقہ میں نہیں۔ کچھ ٹائیگر برساتی جنگلات میں رہتے ہیں اور کچھ خشک جنگلات میں، اسی طرح کچھ کا مسکن دلدلی علاقے ہیں تو کچھ تین ہزار میٹر کی بلندی پر رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تلاش اور ان کی تعداد میں اضافے کی کوششیں کرنا ایک مشکل امر ہے۔
ویسے تو انہیں کئی قسم کے خطرات لاحق ہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلیاں ان کے لیے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ سائنس آف دا ٹوٹل انوائرمنٹ میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سندربن جنگلات میں پانی کی سطح بلند ہو ہی ہے۔ بھارت سے بنگلہ دیش تک پھیلے اس قدرتی علاقے میں آنے والی تبدیلیاں بنگال ٹائیگرز کی نسل کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ نسل صرف اسی ماحول کی عادی ہے۔