سن 2014ء میں نریندر مودی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے انتخابی مہم میں ’اچھے دن آ رہے ہیں‘‘ کے نعرے لگائے تھے۔ اسی انتخابی مہم کی بنا پر وہ زبردست کامیابی حاصل کرنے اور ملک کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب بھارتی سرکار چار برس سے زائد کا عرصہ مکمل کر چکی ہے اور ملک میں نئے انتخابات کی آمد آمد ہے، تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مودی حکومت نے گزشتہ انتخابات میں ’اچھےدن آ رہے ہیں‘ کا وعدہ پورا کیا اور کیا بھارتی عوام کے لیے یہ ’اچھے دن‘ آ گئے؟
آئندہ برس مئی میں بھارت میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے اور وزیراعظم نریندر مودی ان انتخابات میں دوبارہ فتح حاصل کرنے کے لیے اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ متحرک ہیں، تاہم ملک میں ملازمتوں کی کٹوتی، زرعی شعبے میں گرتی قیمتوں، دیہی علاقوں میں آمدن میں کمی اور ٹیکس اصلاحات کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔
اقتصادی ترقی کی شرح میں اضافے کے باوجود بھارتی روپے کی قدر میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ روپے کی قدر میں اسی ریکارڈ کمی کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوا، جو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر منتج ہوا۔ اسی تناظر میں بھارت میں بڑے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھے گئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ہوئے مدھیا پردیش ریاست سے تعلق رکھنے والے 52 سالہ مصری لال نے کہا، ’’ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم فقط دو وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں، تاہم صابن تک خریدنے کے لیے ہمیں پیسے جوڑنا پڑتے ہیں۔‘‘ لعل نے بتایا کہ وہ دو ڈالر یومیہ کما پاتا ہے۔
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Bradshaw
6 تصاویر1 | 6
روئٹرز کے مطابق بھارت کے مختلف علاقوں خصوصاﹰ بھارتیہ جنتا پارٹی کا گڑھ سمجھی جانے والی شمالی اور وسطی ریاستوں میں عام شہریوں کی بہت بڑی تعداد مودی حکومت کی کارکردگی سے زیادہ خوش نہیں ہے۔ تاہم ایک ارب تیس کروڑ آبادی والے ملک بھارت میں یہ جاننا نہایت مشکل ہے کہ آئندہ انتخابات میں نتائج کیا ہوں گے اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کا آئندہ انتخابات میں کیا اثر پڑے گا۔