'پاکستانی حمایت یافتہ‘ اکاؤنٹس: مودی حکومت ٹوئٹر سے ناراض
جاوید اختر، نئی دہلی
8 فروری 2021
مودی حکومت اب ٹوئٹر سے ناراض ہے اور اس نے مبینہ طور پر 'پاکستانی حمایت یافتہ‘ سینکڑوں اکاؤنٹس کی بندش کا حکم دے دیا ہے۔
اشتہار
بھارت نے ٹوئٹر کو تقریباً بارہ سو اکاؤنٹس بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ مودی حکومت کو شبہ ہے کہ یہ اکاؤنٹس خالصتان کے حامیوں کے یا 'پاکستانی حمایت یافتہ‘ ہیں، جو چند ماہ سے بھارتی کسانوں کی احتجاجی تحریک کو ہوا دے رہے ہیں۔
مودی حکومت نے پہلے بھی ٹوئٹر کو 257 اکاؤنٹس بند کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس مائیکرو بلاگنگ کمپنی نے اس نوٹس پر اب تک عمل درآمد نہیں کیا، جس کی وجہ سے نئی دہلی حکومت ٹوئٹر سے پہلے سے ہی ناراض ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت کو وزارت داخلہ، انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کی طر ف سے موصول ہونے والے مشوروں کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ملکی وزارت نے ٹوئٹر کو یہ نیا نوٹس جمعرات کے روز جاری کیا۔
اس نوٹس میں ٹوئٹر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان 1178 اکاؤنٹس کو بلاک کر دے، جو مبینہ طور پر خالصتان کے حامیوں کے ہیں یا جو بیرونی ملکوں سے 'پاکستان کی حمایت‘ سے چلائے جا رہے ہیں اور جن کا 'کسانوں کی احتجاجی تحریک کو ہوا دینے کے لیے غلط استعمال‘ کیا جا رہا ہے۔
ایک حکومتی ذریعے کا کہنا تھا کہ بیرونی ملکو ں سے چلائے جانے والے ان ٹوئٹر اکاؤنٹس کے ذریعے کسانو ں کی تحریک کے حوالے سے گمراہ کن معلومات پھیلائی جا رہی ہیں اور اشتعال انگیز مواد بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں امن عامہ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ہم پر انگلی کيوں اٹھائی؟ مودی حکومت کی طرف سے عالمی شخصیات کی مذمت
بھارتی کسانوں نے متنازعہ زرعی اصلاحات کی مخالفت ميں دو ماہ سے زائد عرصے سے نئی دہلی کے مضافات ميں دھرنا دے رکھا ہے۔ کئی عالمی شخصيات نے کسانوں کے حق ميں بيانات ديے، جنہیں مودی حکومت نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Radke
اہم شخصيات کی حمايت اور بھارت کی ناراضگی
سوشل ميڈيا پر مشہور گلوکارہ ريحانہ اور سويڈش ماحولیاتی کارکن گريٹا تھونبرگ سميت کئی اہم عالمی شخصيات نے بھارت ميں سراپا احتجاج کسانوں کی حمايت کی۔ بھارتی حکومت نے اسے اپنے اندرونی معاملات ميں ’دخل اندازی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Ivanov
اصلاحات يا کارپوريشنوں کا مفاد؟
گزشتہ برس ستمبر ميں بھارتی حکومت نے زراعت کے شعبے ميں نئے متنازعیہ قوانین وضع کیے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اقدامات بڑی بڑی کارپوريشنوں کے مفاد ميں ہيں۔ کسانوں نے دو ماہ سے زائد عرصے قبل دارالحکومت دہلی کے نواح ميں اپنا احتجاج شروع کيا۔ مگر وزيراعظم نريندر مودی ڈٹے ہوئے ہيں کہ اصلاحات کسانوں کے مفاد ميں ہيں اور انہيں واپس نہيں ليا جائے گا۔
تصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance
نيا قانون کيوں متنازعہ؟
کسانوں تنظیموں کا موقف ہے کہ نيا قانون اس بات کی گارنٹی نہيں ديتا کہ زرعی پيداوار کسی کم از کم قيمت پر بک سکے گی، جس کے باعث وہ کارپوريشنوں کے چنگل ميں پھنس جائيں گے۔ اپنے مطالبات منوانے کے ليے کسانوں نے کئی ريلياں نکاليں۔ چھبيس جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر ايک ريلی ميں ہنگامہ آرائی کے بعد سے ماحول کشيدہ ہے۔
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS
ريحانہ
باربيڈوس کی معروف پاپ اسٹار ريحانہ نے حال ہی ميں بھارتی کسانوں کی حمايت کا اظہار کيا۔ انہوں نے ٹوئيٹ میں کہا، ’’ہم اس بارے ميں بات کيوں نہيں کر رہے؟‘‘ عالمی سطح پر ان کی اس ٹوئيٹ کو کافی سراہا گيا مگر بھارت ميں کئی نامور ستارے اپنے ملک کے دفاع ميں بول پڑے اور ريحانہ کے خلاف کافی بيان بازی کی۔
تصویر: picture alliance/dpa/A.Cowie
گريٹا تھونبرگ
اٹھارہ سالہ ماحول دوست کارکن گريٹا تھونبرگ نے بھی ايک ٹوئيٹ ميں بھارتی کسانوں اور ان کی تحريک کی حمايت کی، جس پر حکمران بھارتی جنتا پارٹی کافی نالاں دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
جسٹن ٹروڈو
کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے دسمبر ميں کسانوں کی حمايت ميں بيان ديتے ہوئے دھرنے پر تشويش ظاہر کی۔ اس پر بھارتی وزارت خارجہ نے بيان جاری کيا کہ ٹروڈو کا بيان بھارت کے اندونی معاملات ميں دخل اندازی ہے۔
تصویر: Sean Kilpatrick/The Canadian Press/ZUMAPRESS.com/picture alliance
امانڈا سرنی
انسٹاگرام اسٹار امانڈا سرنی نے اپنے اکاؤنٹ پر تين بھارتی خواتين کی تصوير شيئر کی، جس پر لکھا تھا کہ ’دنيا ديکھ رہی ہے۔ آپ کا يہ مسئلہ سمجھنے کے ليے بھارتی، پنجابی يا جنوبی ايشيائی ہونا ضروری نہيں۔ صرف انسانيت کے ليے فکر ضروری ہے۔ ہميشہ آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت، سب کے ليے بنيادی شہری حقوق اور ملازمين کے احترام کا مطالبہ کريں۔‘
تصویر: Scott Roth/Invision/AP/picture alliance
مينا ہيرس
امريکی نائب صدر کملا ہيرس کی بھانجی اور وکيل مينا ہيرس نے بھی ٹوئيٹ کی کہ ’ہم سب کو بھارت ميں انٹرنيٹ کی بندش اور کسانوں کے خلاف نيم فوجی دستوں کے تشدد پر برہم ہونا چاہيے۔‘
تصویر: DNCC/Getty Images
جم کوسٹا
امريکی ڈيموکريٹ سياستدان جم کوسٹا نے بھی بھارت ميں کسانوں کی تحريک کی حمايت کی ہے۔ انہوں نے وہاں جاری حالات و واقعات کو پريشان کن قرار ديا۔ خارجہ امور سے متعلق کميٹی کے رکن کوسٹا نے کہا کہ کسانوں کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے اور اس کا احترام لازمی ہے۔
تصویر: Michael Brochstein/ZUMA Wire/picture alliance
روپی کور
چوٹی کی نظميں لکھنے والی بلاگر روپی کور نے ريحانہ کی جانب سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی تعريف کی اور خود بھی کسانوں کی حمايت ميں بيان ديا کہ بھارت ميں زراعت کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برسوں ميں وہاں کئی کسان خود کشياں کر چکے ہيں۔
تصویر: Chris Young/The Canadian Press/AP Images/picture alliance
جان کيوسک
امريکی اداکار اور رضاکار جان کيوسک بھی اس سال جنوری سے بھارتی کسانوں کی تحريک کی حمايت ميں بيان ديتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
11 تصاویر1 | 11
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر کو اس سے پہلے بھی بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی قوانین کے تحت 257 اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کی ہدایت دی گئی تھی لیکن اس نے اب تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔ ان ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری حکم نا ماننے پر ٹوئٹر کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔
مودی حکومت نے ٹوئٹر کو گزشتہ ماہ کی 31 تاریخ کو 257 ایسے اکاؤنٹس بند کرنے کا حکم دیا تھا، جو حکومت کے مطابق اشتعال انگیزی کے مرتکب ہوئے تھے اور بھارتی کسانوں کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے گمراہ کن معلومات پھیلا رہے تھے۔ ٹوئٹر نے اپنی انڈیا ٹیم کے مشورے کے بعد ابتدا میں اس حکم پر عمل درآمد کیا تھا اور ان اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا تھا، جن میں نیوز میگزین کارواں، بالی وُڈ کے ایک مقبول اداکار اور متعدد سماجی کارکنوں کے اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ ٹوئٹر کے اس اقدام پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچ گیا تھا اور اس پر سنسرشپ کے الزامات عائد کیے جانے لگے تھے۔ اس پر ٹوئٹر انتظامیہ نے چند ہی گھنٹے بعد اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے یہ تمام اکاؤنٹس بحال کر دیے تھے۔
تب ٹوئٹر نے ان اکاؤنٹس کو بحال کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے ان اکاؤنٹس کی بحالی کا فیصلہ اس لیے کیا ان کے ذریعے شیئر کی جانے والی معلومات 'اظہار رائے کی آزادی کے مطابق اور خبریں بننے کے لائق" تھیں۔
مودی حکومت کی طرف سے ٹوئٹر کو مزید اکاؤنٹس بند کرنے کے حوالے سے تازہ ترین نوٹس میں سابقہ حکم پر بھی عمل درآمد کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
بھارت: کسانوں کا حکومت مخالف احتجاج جاری
بھارت کے متنازعہ نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ کسانوں نے قومی دارالحکومت کی سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کر رکھا ہے۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن تعطل برقرار ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہار نہیں مانیں گے
قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
امید باقی ہے
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت نئے سیاہ قوانین واپس لے گی اور یہ احتجاج حکومت کے لیے آخری موقع ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہم دہشت گرد نہیں
کسانو ں کی اس غیر معمولی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ مظاہرین نے 'خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے ہیں لیکن بعدازاں یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔
تصویر: Mohsin Javed
نوجوانوں کی امنگیں
مظاہرے میں بڑی تعداد میں نوجوان بھی موجود ہیں۔ ان میں اعلی تعلیم یافتہ اور مغربی ممالک سے واپس لوٹ کر زراعت کو روزگار کا ذریعہ بنانے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
خواتین بھی شانہ بشانہ
اس مظاہرے میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ان کا جوش و خروش قابل دید ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
زخمی مظاہرین
حکومت نے کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام حربے اور طریقے آزمائے۔ اس دوران آنسو گیس کے شیل لگنے سے کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
مظاہرین کی آمد کا سلسلہ جاری
ملک کے مختلف حصوں سے مرد اور خواتین کسانوں کے قومی دارالحکومت آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ملک بھر کے کسان شامل
مودی حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ صرف پنجاب کے کسانوں کی تحریک ہے لیکن متعدد ریاستوں کے کسانوں اور مختلف تنظیموں نے اس میں اپنی شمولیت کا ثبوت پیش کیا۔
تصویر: Mohsin Javed
جنگ جاری رہے گی
”ہم اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک جنگ ہے اور یہ جاری رہے گی، جب تک مزدور کسان استحصال کا شکار ہیں۔" بھگت سنگھ
تصویر: Mohsin Javed
کھانے کی تیاری
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ تک رکنے کی تیاری کرکے آئے ہیں۔ انہیں کھانے پینے کی کوئی دشواری پیش نہیں آرہی ہے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جانے والے کسان رہنمااپنا کھانا بھی ساتھ لے کر گئے تھے اور حکومتی ضیافت کو ٹھکرا دیا۔
تصویر: Mohsin Javed
ذرا تازہ دم ہوجاوں
مظاہرین کی خدمت کرتے کرتے تھک کر ایک کسان تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
ماں کا آغوش
کسان زمین کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اور نیند کے لیے ماں کے آغوش سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
حالات سے باخبر
دھرنا اپنی جگہ، لیکن 'دیش اور دنیا‘ کے حالات سے باخبر رہنا بھی تو ضروری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
علم کا کوئی بدل نہیں
مظاہروں کے ساتھ ساتھ حصول علم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے 'روڈ لائبریری‘ بھی قائم کررکھی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ڈاکٹر اور دوائیں بھی دستیاب
مظاہرے میں شامل ہزاروں افراد کے لیے صرف کھانے پینے کا ہی نظم نہیں ہے بلکہ کسانوں نے ان کی صحت کی دیکھ بھال کا پورا انتظام بھی کررکھا ہے۔ درجنوں ڈاکٹر اور طبی عملہ رضاکارانہ طور پر ہمہ وقت خدمت میں مصرو ف ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے تمام سرحدو ں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کررکھے ہیں۔ لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال دہلی میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ سڑکوں پر ہی بیٹھے رہیں گے۔
تصویر: Mohsin Javed
کنگنا رناوت پھنس گئیں
بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے مظاہرین کے خلاف ایک ٹوئٹ کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی زبردست نکتہ چینی ہورہی ہے۔ کنگنا نے گو اپنا ٹوئٹ واپس لے لیا ہے لیکن مظاہرین اب بھی ناراض ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'گودی‘ میڈیا سے ناراضگی
کسان حکومت نواز میڈیا سے سخت ناراض ہیں۔انہوں نے ایسے ٹی وی چینلوں کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ بھارت میں 'گودی میڈیا‘ حکومت نواز میڈیا کو کہتے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'سوچھ بھارت‘
وزیر اعظم نریندر مودی کی مہم 'سوچھ بھارت‘ کی عملی تصویر۔ کسان خود ہی صفائی ستھرائی بھی کررہے ہیں۔
ٹیکسٹ: جاوید اختر تصاویر: محسن جاوید
تصویر: Mohsin Javed
19 تصاویر1 | 19
جیک ڈورسی کے رویے سے ناراض
مودی حکومت ٹوئٹر کے بانی جیک ڈورسی کے رویے سے بھی ناراض ہے۔ ڈورسی نے بھارت میں کسانوں کی تحریک کی حمایت میں کی گئی کئی ٹویٹس کو 'لائک‘ کیا تھا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جیک ڈورسی کے رویے نے ٹوئٹر کی غیر جانبداری پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، ”اگر ٹوئٹر کا بانی ہی کھلے عام ایک فریق بن جائے، تو اس پلیٹ فارم کی غیر جانبداری پر سوال پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے۔"
اشتہار
ڈورسی نے کسانوں کی تحریک کے سلسلے میں معروف امریکی گلوکارہ ریحانہ کی ٹویٹ کو 'لائک‘ کیا تھا۔ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی کارین آتیہ کی اس پوسٹ کو بھی لائک کیا تھا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ ریحانہ نے ''بھارتی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘‘
ٹوئٹر نے ابھی تک مودی حکومت کے تازہ ترین نوٹس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹوئٹر کے سی ای او جیک ڈورسی کے رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھارت میں کسانوں کے احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے ملکی حکومت کے موقف کے بر عکس موقف بھی اختیار کر سکتے ہیں۔