مودی سرکار نے جاسوسی کی يا نہيں؟ سپريم کورٹ تفتيش کرائے گی
27 اکتوبر 2021
بھارتی سپريم کورٹ نے پيگیسس جاسوسی معاملے ميں مودی سرکار کے کردار کی تفتيش کرانے کا اعلان کر ديا ہے۔ عدالت کے مطابق سکيورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر ہر مرتبہ حکومت کو 'فری پاس‘ نہيں ديا جا سکتا۔
اشتہار
بھارتی سپريم کورٹ نے ماہرين کی ايک کميٹی تشکيل دی ہے، جو وزير اعظم نريندر مودی کی حکومت کی جانب سے ايک اسرائيلی سافٹ ويئر کی مدد سے اپنے سياسی مخالفين، صحافيوں اور انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکنوں کی مبينہ جاسوسی کے معاملے کی چھان بين کرے گی۔ ايک ريٹائرڈ جج اس کميٹی کی سربراہی کر رہے ہيں اور اس کی رپورٹ رواں سال کے اختتام تک متوقع ہے۔ عدالت عظمی نے يہ قدم صحافيوں، حزب اختلاف کے سياست دانوں اور کارکنان کی جانب سے دائر کردہ ايک پٹيشن کے رد عمل ميں اٹھايا ہے۔
پيگیسس جاسوسی معاملہ ہے کيا؟
گلوبل ميڈيا کنسورشيئم کی اس سال جولائی ميں سامنے آنے والی ايک تحقيقاتی رپورٹ ميں انکشاف کيا گيا تھا کہ اسرائيلی ساختہ عسکری نوعيت کے سافٹ ويئر پيگیسس کو استعمال کرتے ہوئے کم از کم پچاس ملکوں ميں سينکڑوں اہداف کی جاسوسی کی گئی، جن میں سياسی مخالفين، صحافي اور انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکن شامل ہیں۔ بھارت بھی اس سافٹ ویئر کو استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست ميں شامل تھا۔ رپورٹ کے اجراء کے بعد تہلکہ مچ گيا اور سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی کا موقف سامنے آيا کہ 'وہ يہ سافٹ ويئر صرف حکومتوں کو فروخت کرتی ہے‘ اور اس کا استعمال صرف دہشت گردوں اور جرائم پيشہ افراد کے خلاف کيا جاتا ہے۔ کمپنی نے يہ بھی واضح کيا کہ اسے کسی صارف يا متاثرہ شخص کے ڈيٹا تک رسائی حاصل نہيں۔
بھارتی حکومت نے ايسی رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے جاسوسی کے الزامات کو بے بنياد قرار ديا تھا۔ اس رپورٹ کے ناقدين نے بھی مذکورہ کمپنی کی وضاحت کو 'غلط بيانی‘ پر مبنی قرار ديا اور ايسے شواہد پيش کيے، جن سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ اين ايس او نامی يہ کمپنی متاثرين کا ڈيٹا خود محفوظ رکھتی ہے۔ ناقدين نے مزيد کہا کہ پيگیسس کا مسلسل اور وسيع پيمانے پر استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نجی سطح پر جاسوسی سے متعلق انڈسٹری ميں ريگوليشن کا کس قدر فقدان ہے۔
پيگیسس کام کيسے کرتا ہے؟
پيگیسس کسی بھی شخص کے اسمارٹ فون ميں داخل ہونے کے بعد تمام تر ڈيٹا تک رسائی حاصل کر ليتا ہے۔ حتی کہ کيمرا اور مائیکرو فون بھی اس کے کنٹرول ميں ہوتے ہيں۔ يوں ہيکرز متاثرہ شخص کی تمام تر بات چيت، پيغامات کا تبادلہ و ديگر مواد کی جاسوسی کر سکتے ہيں۔
پیگاسس، کیسے جاسوسی کرتا ہے؟
04:13
مودی سرکار کے خلاف تفتيش کے مطالبات
بھارتی اپوزيشن جولائی سے ہی يہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ اس معاملے کی صاف شفاف تحقيقات کرائی جائيں۔ جولائی ميں وزير برائے انفارميشن ٹيکنالوجی نے گلوبل ميڈيا کنسورشيئم کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد کہا تھا کہ نہ صرف يہ بے بنياد ہے بلکہ يہ بھارت ميں جمہوريت کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی ہے۔ تاہم حکومت نے کہيں بھی کھل کر يہ نہيں کہا کہ آيا اس نے سافٹ ويئر استعمال کيا يا نہيں۔ سپريم کورٹ نے بدھ کو تفتيشی کميٹی کے قيام کے موقع پر کہا کہ سکيورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر ہر مرتبہ 'فری پاس‘ نہيں ديا جا سکتا۔
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔