1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی سے ملاقات مایوس کن رہی، بھارت نواز کشمیری رہنما

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
6 جولائی 2021

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ہند نواز رہنماؤں نے نریندر مودی سے اپنی ملاقات کو مایوس کن بتاتے ہوئے کہا ہے کہ  بھارتی حکومت کشمیر میں اعتماد سازی سے متعلق پختہ اقدامات کرنے میں پوری طرح سے ناکام رہی ہے۔

Indien | Premierminister Modi Treffen Kaschmir
تصویر: Indian Prime Ministry/AA/picture alliance

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ہند نواز رہنماؤں کے اتحاد ’’پیپلز الائنس فار گپکار‘‘ (پی اے جی ڈی) نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کُل جماعتی ملاقات پر اپنا مشترکہ بیان جاری کر کے اس پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ اس گروپ کے بیان کے مطابق  کشمیر کی سیاسی جماعتیں گزشتہ ماہ ہونے والی میٹنگ کے نتائج سے پوری طرح مایوس ہیں۔

گپکار کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب جموں و کشمیر میں اسمبلی اور لوک سبھا کی نشستوں کی حد بندی کرنے والا کمیشن ریاست کا دورہ کر رہا ہے۔ منگل چھ جولائی کو اس کمیشن سے وابستہ حکام وادی کشمیر پہنچے ہیں جو ان بھارت نواز رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

گپکار کے مشترکہ بیان میں کیا ہے؟ 

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں 24 جون جمعرات کی شام کو وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہند نواز جموں و کشمیر کے 14 رہنماؤں کے ساتھ تقریباً ساڑھے تین گھنٹوں تک میٹنگ چلی تھی۔ اس میٹنگ کے بعد انفرادی طور پر تقریباﹰ تمام رہنماؤں کے بیانات سامنے آئے تھے تاہم گپکار کی جانب سے مشترکہ بیان پہلی بار سامنے آيا ہے۔

اس سلسلے میں گپکار رہنماؤں کی میٹنگ اتوار چار جولائی کو ہوئی تھی تاہم مشترکہ بیان پانچ جولائی پیر کے روز جاری کیا گيا۔ اس میں کہا گیا، ’’پی اے جی ڈی کے تمام ارکان نے دہلی کے اجلاس کے نتائج پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ خاص طور پر سیاسی اور دیگر قیدیوں کو جیلوں سے رہا کرنے اور 2019 کے بعد جو جابرانہ محاصرے اور دم گھٹنے کا ماحول پیدا ہوا اس کو ختم کرنے کے لیے اعتماد سازی جیسے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گيا،  ’’جموں و کشمیر کے لوگوں تک رسائی کے لیے اس طرح کے انتہائی ضروری عمل سے آغاز ہو سکتا تھا جو مسئلہ کشمیر کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہونے کے ساتھ ساتھ خطے میں پنپنے والی مشکلات سے بھی دو چار ہیں۔‘‘

بھارت نواز سیاسی رہنماؤں نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ حکومت نے ایوان میں ریاست کا درجہ بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی: ’’اس لیے کسی بھی طرح کے انتخابات سے قبل پہلے مکمل طور پر ریاستی درجہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ اتحاد کا کہنا ہے کہ وہ اس موضوع پر سبھی کو متحد کرنے کے لیے ان جماعتوں سے بھی بات چيت کرے گی جو گپکار کا حصہ نہیں ہیں۔

تصویر: Indian Prime Ministry/AA/picture alliance

پہلے الیکشن یا پھر ریاستی درجہ؟

24 جون کو دلی میں کل جماعتی میٹنگ کے بعد حکومتی بیان میں کہا گيا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے رہنماؤں سے بات چيت میں اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جلد سے جلد اسمبلی انتخابات کے ذریعے جمہوری عمل کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے کشمیری رہنماؤں سے انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی میں تعاون کرنے کی بھی اپیل کی تھی۔

اس وقت حکومت نے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کا اپنا وعدہ پورا کرنے کی بھی بات دہرائی تھی تاہم اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا اور کہا کہ مناسب وقت پر ریاست کا درجہ فراہم کیا جائے گا۔  اس بات چیت میں حکومت نے پہلے انتخابات کروانے کی بات پر زور دیا تھا اور کہا کہ ریاست کا درجہ الیکشن کے بعد بحال کیا جا سکتا ہے، تاہم کشمیری رہنماؤں کا موقف تھا کہ پہلے کشمیر کو مکمل طور پر ایک ریاست کا درجہ دیا جائے پھر انتخابات کرائے جائیں۔

کشمیر میں حد بندی کی تیاری

حد بندی کمیشن کے اراکین آج منگل کو وادی کمشیر پہنچے ہیں تاہم بیشتر کشمیری رہنما اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملکی سطح پر جب حد بندی کا عمل 2026 میں ہونا ہے تو پھر کشمیر میں اسے پہلے کیوں کرایا  جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی کی حکومت جموں کے علاقے میں اسمبلی سیٹیں بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے، اسی لیے وہ پہلی فرصت میں حد بندی مکمل کرنے پر زور دے رہی ہے۔   

مودی کی حکومت نے پانچ اگست 2019 ء کو کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کو ختم کرتے ہوئے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے کشمیری رہنماؤں اور بی جے پی کی حکومت کے درمیان بھی اعتماد کی کمی پائی جاتی ہے۔ تاہم اطلاعات کے مطابق عالمی دباؤ کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی کشمیر میں جلد سیاسی عمل کا آغاز چاہتے ہیں تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ کشمیر میں جمہوریت بحال کر دی گئی ہے۔

’کشمیری رہنما عالمی حالات کو بھانپ نہیں پائے‘

07:14

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں