مودی میرے دوست ہیں تو بھارتی امریکی مجھے ہی ووٹ دیں گے، ٹرمپ
5 ستمبر 2020
امریکی صدارتی انتخابات میں اس بار کانٹے کی ٹکّر ہے جس میں کامیابی کے لیے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن جماعتیں تقریباﹰ پچیس لاکھ بھارتی نژاد ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتی نژاد امریکی شہریوں کے ساتھ ایسی اچھی دوستی قائم کر لی ہے کہ آئندہ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھارتی نژاد امریکی انہی کو ووٹ دیں گے۔ اس سے قبل ایسے ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے تحت ’فور مور ایئرز‘ کے عنوان سے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں ہیوسٹن کے 'ہاؤڈی موڈی‘ اور احمدآباد میں منعقدہ 'نمستے ٹرمپ‘ جیسے پروگراموں میں نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریروں کی جھلکیاں پیش کی گئی تھیں۔
وائٹ ہاؤس میں بریفنگ کے دوران اسی ویڈیو سے متعلق ایک سوال پوچھا گيا جس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم ان کے بہت ہی گہرے دوست ہیں۔ ''ہمیں بھارت سے بڑی حمایت ملی ہے۔ ہمیں وزير اعظم نریندر مودی کی بھی عظیم حمایت حاصل ہے۔ میں تو یہی سوچوں گا کہ بھارتی نژاد امریکی لوگ تو ٹرمپ کے لیے ووٹ کریں گے۔ مودی میرےگہرے دوست ہیں اور وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ آسان تو کچھ بھی نہیں ہے، تاہم انہوں نے اچھا کام کیا ہے۔‘‘
ٹرمپ نے مودی کی تعریف ایک ایسے وقت کی ہے جب تباہ حال بھارتی معیشت اور بے روزگاری کی ریکارڈ شرح کے لیے ان پر زبردست نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ ایک طرف اقتصادی صورتحال بری ہے تو دوسری جانب کورونا وائرس کی وبا اتنی تیزی سے پھیلتی جاری ہے کہ بھارت میں 40 لاکھ سے بھی زیادہ افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں جب کہ 70 ہزار کے قریب ہلاک بھارتی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ مودی کی حکمت عملی ہر محاذ پر ناکام دکھتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے جرمنی کے بارے میں بیانات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور جرمنی پر تنقید بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے چانسلر میرکل کو ’عظیم‘ بھی کہا ہے اور ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ برلن حکومت امریکا کی ’مقروض‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
کبھی ایسا تو کبھی ویسا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ وہ جرمنی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور کبھی ان حق میں بیان بھی دیتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
’عظیم‘
ٹرمپ نے 2015ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جرمنی خاموشی سے رقم جمع کرنے اور دنیا کی ایک عظیم رہنما میرکل کے سائے میں قسمت بنانے میں لگا ہوا ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/M. Schreiber
بہت برا
’’جرمن برے ہوتے ہیں، بہت ہی برے۔ دیکھو یہ امریکا میں لاکھوں گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔ افسوس ناک۔ ہم اس سلسلے کو ختم کریں گے۔‘‘ جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کے مطابق ٹرمپ نے یہ بیان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک سربراہ اجلاس کے دوران دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/E. Vucci
کچھ مشترک بھی
ٹرمپ نے مارچ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’ ٹیلفون سننے کی بات ہے، تو میرے خیال میں جہاں تک اوباما انتظامیہ کا تعلق تو یہ چیز ہم میں مشترک ہے۔‘‘ ان کی اشارہ ان الزامات کی جانب تھا، جو وہ ٹیلیفون سننے کے حوالے سے اوباما انتظامیہ پر عائد کرتے رہے ہیں۔ 2013ء میں قومی سلامتی کے امریکی ادارے کی جانب سے میرکل کے ٹیلیفون گفتگو سننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد جرمنی بھر میں شدید و غصہ پایا گیا تھا۔
تصویر: Picture alliance/R. Sachs/CNP
غیر قانونی
’’میرے خیال میں انہوں نے ان تمام غیر قانونی افراد کو پناہ دے کر ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان تمام افراد کو، جن کا تعلق جہاں کہیں سے بھی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے یہ بات ایک جرمن اور ایک برطانوی اخبار کو مشترکہ طور پر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
’مقروض‘ جرمنی
ٹرمپ نے 2017ء میں میرکل سے پہلی مرتبہ ملنے کے بعد کہا تھا، ’’جعلی خبروں سے متعلق آپ نے جو سنا ہے اس سے قطع نظر میری چانسلر انگیلا میرکل سے بہت اچھی ملاقات ہوئی ہے۔ جرمنی کو بڑی رقوم نیٹو کو ادا کرنی ہیں اور طاقت ور اور مہنگا دفاع مہیا کرنے پر برلن حکومت کی جانب سے امریکا کو مزید پیسے ادا کرنے چاہیں۔‘‘
تصویر: Picture alliance/dpa/L. Mirgeler
منہ موڑنا
امریکی صدر نے جرمن حکومت کے داخلی تناؤ کے دوران اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’جرمن عوام تارکین وطن کے بحران کے تناظر میں، جس نے مخلوط حکومت کو مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے، اپنی قیادت کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں افراد کو داخل کر کے یورپی سطح پر بہت بڑی غلطی کی گئی ہے، جس سے یورپی ثقافت پر بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images/L. Marin
7 تصاویر1 | 7
اس موقع پر ٹرمپ نے ہیوسٹن میں مودی کے ساتھ اپنی ملاقات اور پھر بھارتی ریاست گجرات میں مودی کے ساتھ جلسے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے جس گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا تھا وہ ایک مثال ہے اور وزیر اعظم مودی کی اس سے بڑی فیاضی اور کیا ہوسکتی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’مودی ایک بڑے رہنما اور عظیم شخص ہیں۔‘‘
بھارتی نژاد کمالہ ہیرس ڈیموکریٹ پارٹی سے نائب صدر کی امیدوار
صدارتی انتخابات میں سخت مقابلے کے پیش نظر حالیہ ہفتوں میں ڈیموکرٹیک اور ریپبلکن پارٹیوں نے بھارتی نژاد رائے دہندگان کو اپنی جانب آماداہ کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایشائی نژاد افراد عموما ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتے رہے ہیں تاہم مودی کے سبب بھارتی نژاد افراد کا ایک طبقہ اس بار ریپبلکنز کی جانب آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی نے بھارتی نژاد کمالہ ہیرس کو نائب صدر کا امیدوار نامزد کیا ہے۔
امریکا میں تقریبا 40 لاکھ بھارتی شہری رہتے ہیں جن میں سے تقریبا 25 لاکھ افراد کو ووٹ ڈالنے کا بھی حق حاصل ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ میں غالباً پہلی بار کسی بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ تشہیری مہم کا ویڈیو جاری کیا گيا۔ ٹرمپ نے بھارتی نژاد ووٹروں کو اپنی طرف آمادہ کرنے کے لیے پہلی مرتبہ ہندوؤں کے لیے ایک علیحدہ اتحادی گروپ تشکیل دیا ہے جب کہ سکھوں کے لیے بھی ایک الگ گروپ بنایا گیا ہے۔
چین بھارت کشیدگی میں ثالثی کی پیشکش
اس دوران صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر سے بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لیے ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ صورت حال بہت ہی ناگوار ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا اس بارے میں دونوں ممالک سے بات کرتا رہا کہ آخر اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''چین اور بھارت کے معاملے میں مدد کے لیے ہم تیار بیٹھے ہیں۔ اگر ہم کچھ کر سکتے ہیں تو ہمیں اس میں شامل ہو کر اسے حل کرنے میں خوشی ہوگی۔‘‘
ٹرمپ نے اس سے قبل بھی فریقین میں ثالثی کی پیشکش کی تھی جسے چین نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ کہ اس معاملے میں کسی تیسرے فریق کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بھارت نے اس پر خاموشی اختیار کی تھی۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔